اٹھاون ٹو بی یا باسٹھ ون ایف

جاوید قاضی  ہفتہ 28 اپريل 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یوں لگتا ہے جیسے بوتل سے جن نکل آیا ہو ہر طرف پکڑ دھکڑ ہے، کوئی یہاں گر رہا ہے تو کوئی وہاں، کوئی اقامہ سے توکوئی نیب سے یہ فہرست طویل ہوجائے گی اگر لکھنے بیٹھ گئے تو…

اچھا بھی ہے وہ اس لیے کہ یہ ہونا چاہیے ۔ مافیاؤں نے ہر طرف ، ہر سمت اپنے کھانچے نکالے ہوئے ہیں اور برا اس لیے ہے کہ کیا سب ہونے میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں اور اگر نہیں تو یہ بھی ایک المیہ ہے تاریخ کا ۔آئین کی شق 58(2)(b) کیا تھی؟ ایک تلوار جو پارلیمنٹ کے اوپر لٹک رہی تھی اس زمانے میں نسیم حسن شاہ جیسے جج بھی تھے جب جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت و پارلیمنٹ پر 58(2)(b) صادرکیا اور کورٹ نے اس کو کالعدم قرار دیا۔ اور جب اسحق خان نے اس شق سے میاں صاحب کی حکومت و پارلیمنٹ کو اڑایا تو چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی کورٹ نے نواز شریف کی پارلیمنٹ و حکومت کو بحال کیا، اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ 58(2)(b) کی شق کو تشریح کے عمل سے محدود کیا یعنیٰ construe narrow  کیا۔ پھر جب فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت و پارلیمنٹ کو اسی شق سے ختم کیا تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ کے بینچ نے اس کو آئین کے عین مطابق پایا اور اس کو construe wide  کیا۔

پھر آگے جاکر بھاری مینڈٹ حاصل کرنیوالے وزیراعظم میاں نواز شریف نے 58(2)(b) کی شق کو ختم کیا یہ سوچ کر کہ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔ ابھی سجاد علی شاہ چیف جسٹس ہی تھے کہ وزیراعظم کو بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ججوں کے درمیاں اختلافات پیدا ہوگئے۔ شریف الدین پیرزادہ چارٹر جہاز میں سفر کرنے لگے اور اکثریتی ججوں نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف فیصلہ کردیا۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے اپنے ہی کیس الجہاد ٹرسٹ کو وجہ بنا کر انھیں کے خلاف استعمال کیا۔ صدر فاروق لغاری بمعہ جسٹس سجاد علی شاہ رخصت ہوئے، جنرل جہانگیر کرامت اس دور میں فوج کے سربراہ تھے اور بہت سے کور کمانڈر بمعہ جنرل جہانگیر کرامت اس بات پر راضی نہ تھے کہ میاں نواز شریف کی حکومت و پارلیمنٹ کو ہٹایا جائے۔ جب جنرل جہانگیر نے اس معاملے پر پریشر محسوس کیا تو استعفیٰ دے کر فوج کے عہدے سے خود دست بردار ہوئے اور پھر یوں جنرل مشرف نمودار ہوئے۔

جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ 58(2)(b) کی شق تھی تو آئین کے اندر اور اس کی dejure لگام صدر پاکستان کے ہاتھوں میں تھیں لیکن اس کی defacto لگام کور کمانڈرز کے ہاتھوں میں تھیں ۔58(2)(b) کیا تھی ایک شق جو جنرل ضیاء الحق نے آئین کے اندر ڈالی تھی کہ جب بھی جونیجو جیسے وزیراعظم من مانی کریں اور پارلیمنٹ اپنا پاور assert کرے تو اس کو اڑا دیا جائے ۔ پاکستان کے سول ملٹری ریلیشنز کی تاریخ میں 58(2)(b)  نے پلڑا ہمیشہ فوج کی طرف جھکا کے رکھا۔ پھر جب میاں صاحب نے اپنی حدود سے تجاوز کیا تو 58(2)(b) کے نہ ہوتے ہوئے بھی 12 اکتوبر 1998ء کو ملک پر شب خوں مارا گیا ۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے سب کی افہام و تفہیم کے ساتھ 58(2)(b) کو دفن کیا گیا۔

تمام فریقین اس بات پر راضی تھے کہ جنرل ضیاء الحق کی آئین کے اندر باقی تمام عنایات کو بھی ختم کیا جائے لیکن خود میاں نواز شریف اور دیگر مذہبی جماعتوں نے اس کی حمایت نہ کی۔ میاں رضا ربانی ، ڈاکٹر مالک اور بہت سے لوگوں نے PML(N) کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ 62(1)(f) ایک ایسی تلوار ہے جو کسی وقت کسی پر بھی چل سکتی ہے۔ عاصمہ جہانگیر تو یہ بھی کہتی تھیں کہ اگر صادق اور امین کی شق کو پرکھا جائے تو کوئی بھی فرد بھی اس پر پورا نہیں اتر سکتا۔ صادق اور امین کہیں یا 62(1)(f) کہیں، آئین کی یہ شق صرف پارلیمنٹرین پر لاگو ہوتی ہے اور اس شق کو آئین میں ڈالنے والا وہ ہی ہے جس نے 58(2)(b) آئین میں ڈالی تھی اور آئین میں اس کو ڈالنے کا مقصد بھی کم و بیش یہی تھا جو 58(2)(b) کا تھا یعنی ایک ایسی تلوار جو ہمیشہ پارلیمینٹرین کے سر پر لٹکتی رہے ۔

فرق صرف یہ ہے کہ 58(2)(b) کو صدر پاکستان invoke  کرتے تھے مگر 62(1)(f)  کے لیے کورٹ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ کل تک کورٹ اس بات پر متفق تھی کہ 62(1)(f)  کی شق کو زیادہ نہ چھیڑا جائے لیکن عدلیہ کی اس ہم آہنگی کو چوہدری افتخار نے روند ڈالا اور 62(1)(f)  کا بے دریخ استعمال کیا ۔ یہ ٹھیک ہے اور مان لیجیے کہ جھوٹی ڈگری جھوٹی ہوتی ہے لیکن جب جنرل مشرف نے پارلیمینٹرین کے لیے گریجویٹ ہونے کا معیار مقررکیا تو سپریم کورٹ کیوں خاموش تھی جب کہ جنرل مشرف کی یہ لاگو کردہ معیار آئین کے اندر موجود بنیادی حقوق اور اس طرح بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔ جب میاں نواز شریف نے اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے 58(2)(b) کو ختم کیا تو پھر وہ 62(1)(f)  کو ختم کرنے کے لیے راضی کیوں نہ ہوئے اس کی وجہ یہ تھی کہ 62(1)(f)  کی جڑیں ان کی constituency میں تھیں کیوں کہ 62(1)(f) ایک اسلامک انجکشن ہے ۔

اگر میاں نواز شریف اس شق کو ختم کرتے تو اسلامی جماعتوں کی طرف سے یقیننا ایک دباؤ آتا اور یہ دباؤ ان کے vote bank  پر منفی اثر ڈالتا۔ فرض کریں کہ اگر 62(1)(f)  ختم بھی کیا جائے تو کیا اس کو ختم کرنے سے حقیقتأ پارلیمنٹ مضبوط ہوجائے گی؟ جب میاں نواز شریف  نے 58(2)(b) کو ختم کیا ، اپنے بھاری مینڈیٹ کے خمار میں جنرل مشرف کو رخصت کیا ، تو کیا اس پر عمل در آمد ہوا؟ معاملہ بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے اندر ہے ، اس کے وجود سے نکلتا ہے سول ملٹری ریلشنز کا equilibrium ہے۔ جیسے جیسے پارلیمنٹ مضبوط ہوگی اس سے سول ملٹری ریلشنز کا نیا equilibrium بنے گا اور اگر پارلیمنٹ کمزور ہوگی تو ان ریلشنز کا ایک نیا equilibrium بنے گا اور آج جو کچھ بھی ہورہا ہے یہ اسی کا پھیلاؤہے (manifestation)۔ اب سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کیسے مضبوط ہوتی ہے اور اس وقت پارلیمنٹ کیوں کمزور ہے۔ پارلیمنٹ بنیادی طور پر عوامی انتخابات سے ڈرائیو کرتی ہے اس موضوع پر میں پہلے بھی ایک مضمون تحریرکر چکا ہوں۔

مختصر یہ کہ جب تک اس ملک کے اندر برادری ، قبائلی اور روایتی ووٹ کا استعمال ہوگا تب تک پارلیمنٹ مضبوط نہ ہوگی اور جب لوگوں کے اندر یہ بیداری پیدا ہوگی کہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال پارٹی کے manifesto  کے مطابق کریں گے تو پارلیمنٹ مضبوط ہوگی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔