لاپتہ 60 افراد اور 14 مغوی بچوں کی بازیابی کا حکم

لاپتہ افراد کی بازیابی کیلیے اقدامات کیے جائیں،ہائی کورٹ


Staff Reporter May 11, 2018
بچوں میں کبریٰ،مسلم،رابعہ،گل،ابراہیم،بوچا،عدنان ،منزہ، نور فاطمہ،صائمہ،عبدالواحد، حنیف،ثانیہ،سہیل خان شامل۔ :فوٹو: ایکسپریس/فائل

سندھ ہائی کورٹ نے 60 لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق پولیس اور دیگر اداروں کو عملی اقدامات کرنے کا حکم دیدیا.

بینچ کے روبرو 60 لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی، عروسہ خاتون نے عدالت میںروتے ہوئے بتایا کہ 4 بیٹیاں ہیں، انھیں لے کر کہاں جاؤں، میرا شوہر ثاقب آفریدی 3 سال سے لاپتہ ہے، 5 بچے ہیں، بچوں کو کیا جواب دوں ،ان کا والد کن کے پاس ہے، مجھے بتائیں میں کہاں جاؤں، اپنے ہی ملک میں ہمارے ساتھ یہ کیسا سلوک ہو رہا ہے، پولیس کی جانب سے پیش رفت نہ ہونے پر عدالت سخت برہم ہوگئی۔

عدالت نے پولیس افسران سے مکالمے میں کہا کہ آپ یہاں آکر عدالت اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ پر احسان کرتے ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ آئی جی سندھ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا جائے، جے آئی ٹیز کا اجلاس اس لیے بلاتے ہیں تاکہ تصاویر کھینچوائی جا سکیں، ایس پی اور تفتیشی افسران کے درمیان خط و کتابت میں مہینوں لگ جاتے ہیں، آپ لوگ چاہتے ہیں آپ کو 2025 تک کی مہلت دے دی جائے.

عدالت نے تفتیشی افسر پر برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ 2025 تک بھی لاپتہ افراد کو بازیاب کرالیں گے،عدالت نے ریمارکس دیے کہ پولیس اور جے آئی ٹیز کی کارکردگی صفر ہے، پولیس اور ٹاسک فورس کارکردگی بہتر بنائے،عدالت نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے عملی کوشیش کرنے کا حکم دیدیاعلاوہ ازیں ہائی کورٹ نے کراچی میں 14 بچوں کے اغوا اور گمشدگی سے متعلق 6 جون تک بچوں کی بازیابی یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

بینچ کے روبرو 14 بچوں کے اغوا اور گمشدگی سے متعلق روشنی ہیلپ لائن کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت ہوئی،وکیل روشنی ہیلپ لائن نے موقف اختیار کیا کہ پولیس بچوں کی بازیابی میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی، 14 بچے اب بھی گمشدہ ہیں، عدالتی احکامات کے باوجود پولیس نے کوئی اصلاحات نہیں کیں،عدالت میں بچوں کی بازیابی کیلیے والدین نے آہ و بکا کی،خواتین عدالت میں روتی رہیں۔

ایک بچی کی والدہ رابعہ نے کہا کہ پولیس کچھ نہیں کر رہی ہے ،در درکی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ،والدین نے کہا کہ ہمیں انصاف دلوایا جائے۔ بچوں کو بازیاب کرایا جائے،پولیس افسران کس مرض کی دوا ہیں ،انھیں مراعات اور تنخواہیں کس کام کیلیے دی جاتی ہیں۔

وکیل روشنی ہیلپ لائن نے موقف اختیار کیا کہ تھانوں میں بچوں کے اغوا کے مقدمات درج کرنے کا کوئی طریقہ کار متعین نہیں، ہر تھانے میں بچوں کے اغوا و گمشدہ ہونے سے متعلق الگ ڈیسک بنائی جائے جب تک موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے بچوں کے اغوا کے واقعات نہیں رکیں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر پولیس افسران ان بچوں کو اپنے بچے سمجھ کر کوشش کریں تو بازیاب ہو جائیں گے، دلچسپی سے کوشش کریں معصوم بچے بازیاب کرائیں، عدالت نے 6 جون تک تمام بچوں کی بازیابی یقینی بنانے کی ہدایت کردی،گمشدہ بچوں میں کبری، مسلم جان، رابعہ، گل شیر، ابراہیم جاوید، بوچا، عدنان محمد، منزہ، نور فاطمہ، صائمہ، عبدالواحد، محمد حنیف، ثانیہ، سہیل خان شامل ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں