ذکرِ الٰہی کی فضیلت و برکات، 'بے شک دل کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے'

 جمعـء 13 جولائی 2018
قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ بے شک دل کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے۔  فوٹو : فائل

قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ بے شک دل کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے۔ فوٹو : فائل

معاشرے پر نگاہ ڈالی جائے تو ہر شخص پریشان حال دکھائی دیتا ہے۔ گھروں میں نحوستوں نے ڈیرے ڈال کر چین و سکون کو برباد کر رکھا ہے۔ ٹینشن، ڈیپریشن تو تقریباً ہر ایک کی بیماری بن چکا ہے۔ کاروبار میں تنگی ہوئی تو قرض کا سہارا لینا پڑا اور جب قرض لیا تو یہ الگ وبال جان بن گیا کہ اس کی ادائی کیسے ہوگی؟

ادائی کا جب کوئی بندوبست نہ ہوسکا تو سود اور رشوت سے کام چلا کر اپنی روحانیت کا خود اپنے ہاتھوں سے قلع قمع کردیا۔ اس طرح اضطراب کو مزید تقویت ملی۔ سکون کی تلاش میں شراب کو فوقیت دی۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے معاشرہ گناہوں میں مبتلا ہوا۔ اور انہی گناہوں کے اثرات جب گھر میں داخل ہوئے تو سب کا چین و سکون چھین لیا، پھر جھگڑے اور فسادات روز کا معمول بنتے گئے۔ جب روحانی سکون کے متلاشی کو سکون میسر نہ ہوا تو پھر وہ آخری راہ کا چناؤ کرلیتا ہے۔

خودکشی کا پھندا یہ سوچ کر چوم لیا جاتا ہے کہ یہاں چین نہیں ملا، کیا معلوم وہاں راحتیں میسر آجائیں۔ خودکشی اسلام میں حرام ہے اور ظاہر ہے حرام کردہ احکام کو جب بندہ بہ خوشی گلے لگائے گا تو کیا آرام و سکون ملے گا ؟ بل کہ وہاں بھی بے سکونی اس کی منتظر ہوگی۔ کہا جاتا تھا کہ مغربی ممالک میں خودکشی عام ہے اور وہ اس سے بے خبر ہیں کہ وہ کس اضطراب کا شکار ہیں۔ لیکن اب تو مسلم ممالک میں بھی خودکشی کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یہ بے سکونی، ٹینشن، ڈیپریشن، سب ذکر خداوندی سے دوری کا نتیجہ ہے۔

قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ بے شک دل کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے۔ یعنی انسان پوری دنیا میں سکون کی تلاش کر لے، نہیں ملے گا۔ کیوں کہ حق تعالیٰ نے خود بتا دیا کہ دل کا سکون میری یاد میں ہے۔ جب دل میں سکون ہوگا تو ظاہراً بھی طمانیت جھلکتی نظر آئے گی۔ جو قلب میں یاد خدا بسائے گا وہ روحانی سکون پائے گا۔

قرآن مجید میں ارشاد الہی کا مفہوم ہے کہ شیطان نے اس پر غلبہ پایا اور اسے اللہ کی یاد سے غافل کردیا۔ اللہ کے ذکر سے دل کو پھیر کر شیطان انسان کو گناہوں سے ایسا کھلاتا ہے جیسا کہ بچے گیند کے ساتھ کھیلا کرتے ہیں۔

لفظ ذکر عربی زبان کا ہے اور قرآن مجید میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ اس نصیحت نامے کو ہم نے ہی نازل کیا اور اس کی حفاظت کے ہم خود ہی ذمے دار ہیں۔ تو یہاں لفظ ذکر نصیحت کے معنی میں ہے۔ ایک جگہ فرمایا۔ تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا یہاں لفظ ذکر اللہ کی یاد کے معنی میں ہے۔ مومنین کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے ہیں۔ اللہ رب العزت خود سورۃ الاحزاب میں فرماتے ہیں، مفہوم : (مومنین کی صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا) اور بہ کثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں ان سب کے لیے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔

ذکر دو طرح سے کیا جاتا ہے لسانی ذکر جو باقاعدہ زبان سے ادا کیا جاتا ہے اور سنا بھی جاتا ہے۔ ایک قلبی ذکر کیا جاتا ہے جو دل میں ہوتا ہے اور ساتھ بیٹھا شخص بھی آواز نہیں سن سکتا، یہ ذکرِ خفی کہلاتا ہے۔ عموماً ہم کہیں خوب صورت منظر دیکھیں تو بے اختیار لب پر ماشاء اللہ، سبحان اللہ جاری ہو جاتا ہے۔ رب ذوالجلال کی قدرت پر اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ یہ ذکر لسانی میں شامل ہیں کیوں کہ ذکر زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ ذکر قلبی میں یہ سہولت رکھی ہے کہ یہ چلتے، پھرتے، اٹھتے، بیٹھتے ہر وقت کیا جاسکتا ہے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: اللہ کا ذکر ایسی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں مجنوں کہنے لگیں۔

خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو دنیا کے ساتھ اپنی آخرت بھی سنوار رہے ہیں۔ اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے غافل نہیں ہوتے ان کی تو شان میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: حضرت ابوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ قیامت کے دن اللہ جل شانہ بعض قوموں کا حشر فرمائیں گے کہ ان کے چہروں میں نور چمکتا ہوگا، وہ موتیوں کے منبروں پر ہوں گے۔ لوگ ان پر رشک کرتے ہوں گے۔ وہ انبیاء اور شہداء نہیں ہوں گے۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! آپ ان کا حال بیان فرما دیجیے کہ ہم ان کو پہچان لیں۔ آپؐ نے فرمایا: وہ لوگ جو اللہ کی محبت میں مختلف جگہوں اور مختلف خاندانوں سے آکر ایک جگہ جمع ہوگئے ہوں اور اللہ کے ذکر میں مشغول ہوں۔ (الطبرانی) ایک جگہ فرمایا کہ جب جنت کے باغوں پر گزرو تو خوب چَرو۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! جنت کے باغ کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ ذکر کے حلقے۔ (الطبرانی)

آج تک جتنے اولیاء اللہ گزرے ان کا کوئی وقت ایسا نہیں گزرا جو یاد خدا سے غافل ہو۔ ہر گھڑی اللہ ہی اللہ کی صدائیں ہوتی تھیں، یہاں تک کہ جب حضرت جنید بغدادیؒ کا انتقال ہونے لگا تو کسی نے کہا حضرت کلمہ پڑھ لیجیے، حضرت جنید بغدادیؒ کہنے لگے میں کسی وقت بھی اس کو نہیں بھولا۔ (یعنی یاد دلاؤ اگر میں کسی گھڑی اپنے اللہ کو بھولا ہوں)

ذِکرُ اللہ کے جہاں اتنے فضائل ہیں وہیں لاتعداد فوائد بھی ہیں۔ اللہ کی یاد جب انسان کے لبوں پر قلب میں سرایت کر جاتی ہے تو سکون اور طمانیت بھی رچ بس جاتی ہے۔ انسان کی تمام تر پریشانیاں خود بہ خود دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ دل میں فرحت، سرور اور انبساط پیدا ہوجاتا ہے، دل اور چہرہ پرُنور ہوجاتا ہے۔ ذکر کا نور دنیا میں بھی ساتھ رہتا ہے اور قبر میں بھی ساتھ رہتا ہے۔ ذکر دلوں کو زندہ کرتا ہے۔

حافظ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ اللہ کا ذکر دل کے لیے ایسا ہے جیسے مچھلی کے لیے پانی۔ اور ایک جگہ آیا ہے کہ ذکر دل اور روح کے لیے روزی ہے۔ ذکر ایسا نشہ ہے جس کا اثر نہ ختم ہونے والا ہے۔ ایسا سکون و لذت جو باقی رہنے والی ہے۔ اللہ کا ذکر دلوں سے ظلمت مٹا کر حلاوت ایمانی پیدا کرتا ہے۔ روح و قلب کو طمانیت بخشتا ہے۔ اللہ کا ذکر جب دل میں بس جاتا ہے تو پھر کوئی طاقت اس سے دور نہیں کرسکتی۔ جتنا ہم اللہ کا ذکر کریں گے قرب الٰہی اتنی زیادہ نصیب ہوگی۔ جتنی ہم غفلت برتیں گے اتنی دوری ملے گی۔

اللہ پاک ہمارے قلب و روح کو اپنی یاد سے مالا مال فرمائے۔ (آمین)

عائشہ صدیقی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔