الیکشن، ووٹرز، تبدیلی کا نعرہ اور اُمیدیں

محمد اعظم عظیم اعظم  بدھ 25 جولائی 2018
پاکستان میں جمہوریت کا ’’ج‘‘ بھربھرا ہوگیا ہے جسے اِس نہج تک پہنچانے والے وہی عناصر ہیں جو نصف صدی سے جمہوری ثمرات پر خود ہی قابض چلے آرہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان میں جمہوریت کا ’’ج‘‘ بھربھرا ہوگیا ہے جسے اِس نہج تک پہنچانے والے وہی عناصر ہیں جو نصف صدی سے جمہوری ثمرات پر خود ہی قابض چلے آرہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج پاکستانیوں سمیت ساری دنیا کی نظریں مُلک میں ہونے والے عام انتخابات کی شفافیت اور اِن کے بعد تشکیل پانے والی حکومت پر لگی ہوئی ہیں۔ اگرچہ اِن انتخابات کے انعقاد کو چند ہی دن رہ گئے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ جیسے انتخابی نتائج کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال ماضی سے مختلف نہیں ہوگی۔ قوی امکان تو یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ نہ تو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے کچھ نیا کرپائیں گے اور نہ ہی ”تبدیلی آئی“ کا ترانہ بجا نے والے بھی کسی ایسی ویسی تبدیلی کے ساتھ کچھ نیا لے کر سامنے آئیں گے۔ وہی کچھ قوم کا مقدر بنے گا جیسا پہلے ہوتا آیا ہے۔

کون سی جماعت مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی؟

نتائج ملاحظہ کریں

اِس میں شک نہیں کہ اقوامِ عالم میں الیکشن چہروں کی تبدیلی کے ساتھ نظام کی بہتری کا ذریعہ بھی ہوا کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ستر سال سے غریبوں، بے کسوں، مجبوروں اور مقروضوں کے دیس پاکستان میں تو الیکشن صرف چہروں کی تبدیلی کا ہی ذریعہ ثابت ہوتے رہے ہیں جن کیلئے قومی خزانے سے اربوں کھربوں کا نقصان ہونا معمولی سی بات ہے۔

سُنا ہے امسال 25 جولائی کو بھی جو انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ یہ مُلکی تاریخ کے سب سے مہنگے الیکشن ہیں۔ ایسا اِس لئے ہے کہ اِن میں دھاندلی اور بوگس ووٹنگ کی روک تھام کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور راکٹ سائنس سے بھی مددلی جارہی ہے۔ اِس لئے غالب گمان یہ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کے مہنگے ترین انتخابات ہوں گے۔ مگر اِس کا بھی کیا فائدہ ہوگا؟ جب کہ حسبِ روایت یہ بھی صرف چہروں کی تبدیلی کیلئے ہی ہوں گے؟

بہرکیف، دیکھ لیتے ہیں۔ اِن مہنگے الیکشنز سے متعلق جتنے دعوے اور وعدے کئے جارہے ہیں، اِن سے چہروں کے علاوہ اور کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟ بس تھوڑا سا انتظار کیجیے؛ عنقریب پتا لگ جائے گا کہ دعوے اور وعدے کرنے والوں کے سر پر کتنے بال ہیں؟ اَب کچھ بھی ہو مگریہاں مجھے بلاروک ٹوک یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اَرضِ مقدس پاکستان میں ہر بار الیکشن کے بعد وجود میں آنے والی حکومتوں کے کارندوں اور جمہوری پچاریوں نے قومی خزانے سے جتنی لوٹ مار کی ہے، یہ اُسی کا نتیجہ ہے کہ آج مُلک تین سو ارب ڈالر کا مقروض ہوگیا ہے۔

یہاں اِس سے بھی اِنکار نہیں کہ مملکتِ پاکستان میں سِول حکمرانوں، سیاستدانوں او ر اِن کے چیلے چانٹوں نے سترسال سے جمہوریت کے نام پر جمہوریت ہی کو موم کی گڑیا بنایا ہے۔ یقین ہے کہ اِس مرتبہ بھی جس انداز سے مٹھی بھر اشرافیہ نے ’’الیکشن، ووٹرز اور تبدیلی‘‘ کے نعرے کے ساتھ جیسی اُمیدیں نتھی کردی ہیں، یہ بھی عوام کی آنکھوں میں جمہوری سفوف جھونک کر عوام سے اپنے حق میں ووٹ لے کر اپنی جیت کو یقینی بنانے کی ڈرامہ بازی اور کڑی سازش ہے۔

آج شاید ہی دنیا میں کوئی قوم اور کوئی مُلک ایسا ہو جس کے عوام اپنے کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا احتساب کرنے کے بجائے، اُلٹا اُن کے بارے میں ایسی رائے رکھیں؛ اور اپنے سینے چوڑے کرکے یہ کہیں ’’اگر کھاتاہے تو لگاتا بھی تو ہے۔‘‘ اِس کا احتساب کرکے ادارے غلط کررہے ہیں۔ سوچئے اور تصور کیجئے، آج وہ عوام جنہیں اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کرپشن پر اداروں سے پہلے اِنہیں ڈنڈا اُٹھا کر کرپٹ عناصر (حکمرانوں اور سیاستدانوں) کا احتساب کرنا چاہئے تھا، آج اِن کا کرپشن پر اپنے حکمرانوں کے حق میں سڑکوں اور گلیوں بازاروں میں نکل کر ایسے بیانات دینا ثابت کرتا ہے کہ سرزمین پاکستان کا تو بچہ بچہ بھی کرپشن کی گھٹی میں ڈوبا ہوا ہے۔ تبھی تو ساری پاکستانی قوم کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اداروں کے احتسابی عمل کے بعد اِنہیں سزا سے بچا رہی ہے۔ اَب آپ اِسے کیا کہیں گے؟

ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں، سیاسی جماعتوں کے بال رومز میں جشن کا سماں ہے، جیت کے ترانے بجائے جارہے ہیں، شور شرابے کا ایک طوفان برپا ہے، قانونی اور اخلاقی حدود کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ یعنی جو جتنا بڑا ڈھیٹ ہے، اُس نے اپنے تئیں اُتنا ہی بڑا اپنی جیت کا خیالی خول تیار کر رکھا ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں اور چائے کی پیالی سے نکلنے والی بھاپ کی طرح خوش فہمیوں کے جال بُن دیئے گئے ہیں جبکہ ابھی تک سنجیدہ اور خاموش ووٹرز کے مزاج اور اِس کے فیصلہ کن کردار کی جانب کسی کی بھی خاص توجہ نہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ الیکشن میں سیاسی جماعتوں کا آپس میں اختلافِ رائے پیدا ہونا اپنی جگہ ہے مگر ایک دوسرے کے خلاف گندی، نفرت بھری اور اشتعال انگیز زبان استعمال کرنا اور گدھے جیسے معصوم اور محنت کش جانور پر ظلم و تشدد کرنا اور اِسے موت کی وادی میں دھکیل دینا اِنسان کی انسانیت اور رویوں پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔

ایسے میں بھلا جیت ہو بھی جائے تو یہ اِنسان اور انسانیت کی نہیں بلکہ حیوانیت اور شیطانیت کی جیت تصور کی جائے گی۔

بدھ کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کیلئے ن لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی، ایم ایم اے اور اُدھر اُدھر کی بڑی چھوٹی اور ظاہر و باطن سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا یو ٹرن لے کر اپنا نیا اتحاد بنائے جانے کا عمل صاف طور پر ظاہر کر رہا ہے کہ آج اِن مفاد پرست ٹولوں کا ایک ساتھ ہونا صرف اور صرف ایک جماعت پی ٹی آئی کی متوقع جیت کے بعد آنے والی وفاقی حکومت کے خلاف ہے۔

دیکھتے ہیں کہ اَب پی ٹی آئی کے مخالفین اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں یا پی ٹی آئی اِنہیں شکست سے دوچار کرکے مرکز میں اپنی حکومت بناتی ہے؟ ویسے یہ نکتہ بھی باور کراتا چلوں کہ پاکستان میں جمہوریت کا ’’ج‘‘ بھربھرا ہوگیا ہے؛ اِسے اِس نہج تک پہنچانے والے یہی عناصر ہیں جنہوں نے نصف صدی سے زائد عرصے میں عوامی ثمرات سے عاری جمہوری ثمرات کا نعرہ تو بہت لگایا مگر اِنہیں عوام الناس تک پہنچانے کے بجائے اپنے ہی دامن تک محدود رکھا ہے۔

تو پھر کیوں نہ جمہوریت کے ایک ’’ج‘‘ کے بجائے ملک کی باگ ڈور تین ’’ج‘‘ یعنی جرنیل، جج اور جرنلسٹ کو دے دی جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔