تابناک مستقبل کے لیے

مقتدا منصور  جمعرات 26 جولائی 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جس روز یہ اظہاریہ شایع ہوگا، انتخابات کے بعد نتائج خاصی حد تک آچکے ہوں گے، مگر ان نتائج سے کسی بھی متوشش شہری کوکوئی دلچسپی نہیں ہے،کیونکہ جس انداز میں Electioneering ہوتی رہی ہے، اس سے غیر جانبداری پر مبنی نتائج کی توقع نہیں کی ہے۔

تشویش کا باعث یہ بات نہیں کہ حکومت کون بنائے گا ؟ بلکہ فکر اس بات کی ہے کہ ملک کا مستقبل کیا ہوگا ؟ انتخابات سے قبل ہی جس قسم کی باتیں سامنے آنا شروع ہوئیں، انھوں نے ہراس شخص کو جو اس ملک کے بارے میںذرا سا بھی درد رکھتا ہے، شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

ملک کے طول و عرض میں ریاستی اداروں پر سیاسی عمل میں مداخلت کے بارے میں کہیں سرگوشیوں اور کہیں کھلے عام اظہار۔ پھر کچھ ایسے فیصلے بھی وقتاً فوقتاً آتے رہے ہیں، جوماضی سے حال تک آئین وقانون کا کھلا مذاق اور ذاتی پسند اور ناپسند کا واضح اظہار رہے ہیں ۔ یہ تمام صورتحال انتخابات کی شفافیت کو مزید مشکوک بنانے کا سبب بن رہی ہے۔ اس وقت کوئی ایساعالمی ذرایع ابلاغ نہیں ہے، جس نے پاکستان کے حالیہ انتخابات کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا ہو ۔ خود وطن عزیز میں جو اظہاریے، جائزے اور تجزیے شایع ہورہے ہیں اور سوشل میڈیا پرجو کچھ آرہا ہے، وہ عام شہری کو ملک کے مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہیں ۔

یہ بات ہماری سیاسی قیادتوں اور ملک کے فیصلہ ساز اداروں کو اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ مضبوط پاکستان صرف شہریوں کی ضرورت نہیں، بلکہ سیاسی عمل کے تسلسل اور تمام اداروںکی پراعتماد کارکردگی کے لیے بھی ضروری ہے۔خود کو ملک کا ٹھیکیدار سمجھنے کی سوچ نے اکہتر برسوں کے دوران جن مسائل کو جنم دیا ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے، مگر شاید حکمران اشرافیہ اس فہم وفراست سے عاری ہے، جو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ وطن عزیز کے حالات بہتری کی طرف جانے کے بجائے مسلسل ابتری کی طرف جا رہے ہیں۔ ناامیدی کے بادل اس لیے بھی مزید گہرے ہورہے ہیں،کیونکہ کسی کو ابتر ہوتی صورتحال احساس نہیں ہے،اسی لیے اس پر توجہ دینے کی فرصت بھی نہیں ہے۔

کئی بار لکھا اور مسلسل لکھا کہ اس ملک میں نہ قدرتی وسائل کی قلت ہے ، نہ ہی انسانی وسائل کی کمی۔ مگر اس کے باوجود جس انداز میں اسے چلانے پر اصرار کیا جا رہا ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ اکہتر برسوں کے دوران سوائے نت نئے بحرانوں کے جنم لینے کے کوئی اچھی خبر نہیں آئی ۔ نئے اداروں کی تشکیل تو دور کی بات وہ ادارے جو تاج برطانیہ سے ورثے میں ملے تھے، وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔کچھ احباب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاشرہ ہنوز نیم پخت ہے۔ کچھ بزرگ شیخ سعدی کے اس شعر کا حوالہ دیتے ہیں کہ:

خشت اول چوں نہد معمار کج

تا  ثریا  می  رود  دیوار کج

اب چاہے پہلی اینٹ کے غلط لگ جانے کا شکوہ کیا جائے یا معاشرے کے نیم پخت رہ جانے کا گلہ کیا جائے۔ ہر دو صورتوں میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ خرابیِ بسیار کا کچھ تو سبب ہے۔ ہم تاریخ پر نظر ڈالیں، تو واضح ہوجاتا ہے کہ دوسروں کو الزام دینا دراصل اپنے سرسے بلا ٹالنے کے مترادف ہے۔اصل خرابیاں اپنے ہی اندر موجود ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب پاکستان بناتھا ، توان گنت مسائل کا شکار تھا ۔ مہاجرین کی تسلسل کے ساتھ آمدکا سلسلہ جاری تھا۔ بھارت سے حصے کی رقوم اور اثاثے بھی ابھی نہیںملے تھے، مگران تمام مسائل کے باوجود مارچ 1949میں جو پہلا بجٹ منظور ہوا ،وہ چند سو روپے ہی سہی، لیکن Surplus تھا۔اس بجٹ کا خلاصہ اسٹیٹ بینک کی لائبریری میں دیکھا جاسکتا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ اب ہر بجٹ خسارے کا ہوتا ہے، وہ بھی لاکھوں یا کروڑوں نہیںبلکہ اربوںکا۔

انگریز جاتے ہوئے برطانوی ہند میں 921 صنعتی یونٹ چھوڑ کر گیا تھا۔ ان میں سے صرف34ان علاقوں میں تھے، جو پاکستان کے حصے میں آئے۔ بھارتی ریاستوں مہاراشٹر اور گجرات سے آنے والے سرمایہ کاروں نے کراچی اورکوٹری میں صنعت کاری شروع کی۔دوسری طرف جی ٹی روڈکے اطراف لاہور سے لالہ موسیٰ تک قائم گھریلو اور چھوٹی صنعتوں میں پھیلاؤ آنا شروع ہوا ۔ 1965کے آنے تک پاکستان کی معاشی نموکی شرح صرف بھارت ہی نہیں بلکہ تمام آزاد ہونے والی نوآبادیات سے زیادہ تھی۔ روپے کی قدر بھی بھارت سے زیادہ تھی۔ قیام پاکستان کے وقت ڈالر 2روپے12آنے کا تھا۔ سونا 30روپے تولہ(یعنی11گرام) ۔مگر جنگ کے ایڈونچر نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا ۔ ڈالر 4 روپے 70 پیسے کا ہوگیا اور معاشی نمو سست روی کا شکار ہوئی۔ کیونکہ 1965کے بعد صنعتی انفرااسٹرکچرمیں ریاست کی طرف سے کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا۔

ابھی ملک 1965کی جنگ کے مضر و منفی اثرات سے نکل بھی نہیں پایا تھا کہ 1971میں دوسری جنگ ہوگئی، جس نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ نہ صرف ملک دو لخت ہوا بلکہ پورا معاشی ڈھانچہ ہی زمیں بوس ہوکر رہ گیا۔یہ ایک تلخ حقیقت بلکہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اصل وارثوں(بنگالیوں) کو دھکیل کرالگ کردینے کے بعدیہ ملک نہ معاشی طورپر سنبھل سکااور نہ ہی سیاسی و سماجی استحکام حاصل کرسکا ۔ جو آج اس ملک کے ٹھیکیدار بنے حب الوطنی کے سرٹیفیکٹ بانٹ رہے ہیں، نہ ان کا اس ملک کے قیام میں کوئی کردار ہے اور نہ انھیں اس ملک کی بقا اور مستقبل سے کوئی علاقہ ہے۔ ان کی جانب سے ریاستی امور پربالادستی قائم کرنے کی خواہش میں خاطر ہر جائز اور ناجائز طریقے کے استعمال نے اس ریاست کو مزید زد پذیر(Vulnerable) بنا دیا۔

ہم اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر ملک کو استحکام کی راہ پر نہیں لگا سکتے کہ جدید ریاست میں کوئی فرد ہو یا کوئی ادارہ مقدس گائے نہیں ہوتا ، بلکہ ہر شہری ، سیاسی جماعت وتنظیم اورہر ریاستی ادارے کو جوابدہی اور احتساب کے عمل سے گذرنا پڑتا ہے ۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ جب بھی افراد یا اداروں کو مقدس گائے بناکر ان کی پوجا کی گئی، تواس عمل نے معاشروں کو تباہ کیا ہے۔ کسی بھی ریاستی ادارے کی کارکردگی کا جائزہ لینا اور اس پر تنقید کرناعوام کا آئینی وقانوی حق ہے۔

عرض ہے کہ کوئی بھی ملک اسی وقت درست اور بہتر انداز میں چل سکتا ہے جب تک کہ وہاں آئین وقانون کی بالادستی قائم نہ ہواور تمام ریاستی ادارے آئین میں متعین کردہ محدودات کے اندر کام کرنے اور اپنی کارکردگی پرجوابدہی کے لیے آمادہ نہ ہوجائیں۔جب تک تمام شہریوں کو قومیت، عقیدے، فرقہ، لسانی و صنفی امتیاز کے بغیر مساوی حقوق حاصل نہ ہوں۔ آئیے ہم سب اناؤں اور خود پسندی کے سحر سے باہر نکل کر اس ملک کو حقیقی معنی میں ایک وفاقی جمہوریہ بنانے کی خاطر اپنی انفرادی ، اجتماعی اور ادارہ جاتی اناؤں کو ایک طرف رکھ دیں۔ اسی میں ہم سب کی بقا اور بہتر مستقبل مضمر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔