ایک اور یومِ آزادی

منیب الحسن رضا  منگل 14 اگست 2018
حالات کیسے بھی رہے ہوں، پاکستانی قوم نے ہمیشہ پوری تندہی سے یومِ آزادی منایا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حالات کیسے بھی رہے ہوں، پاکستانی قوم نے ہمیشہ پوری تندہی سے یومِ آزادی منایا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جے ایس مل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’آزادی‘‘ میں انسان کے آزاد ہونے کےلیے جو شرائط متعین کی ہیں، ان کا اطلاق اگر پاکستانی قوم پر کیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم آزاد تو ہیں لیکن آزادی کے کلیدی اصولوں اور مبادیات پر پورے نہیں اُترتے۔ 1947 میں آزادی حاصل تو کرلی مگر کس سے؟ آئیے، اس سوالِ لایعنی و معنی کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

3 جون کے منصوبے کی اگر بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت الحاق کی جو شرائط ہندوستان میں موجود تمام ریاستوں کے سامنے رکھی گئیں، ان پر دونوں ہی آزاد ہونے والے ممالک (بھارت، پاکستان) عمل پیرا ہونے میں ناکام رہے؛ اور چاہنے کے باوجود کسی بھی ریاست کی خود مختاری برقرار نہ رہی۔ وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہو، اسے پہلی شکست سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

کشمیر میں فوج کشی کے معاملے پر آزادی کو ایک اور ضرب لگی اور دونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل وجہ تنازعہ پیدا کر دی گئی۔ قراردادِ مقاصد پیش کرتے وقت آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ راولپنڈی سازش کیس میں بھی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلہ ہوا اور ہم آزاد ہونے سے بال بال بچ گئے۔ مولوی تمیزالدین کیس کا فیصلہ تو ہماری عدالتی تاریخ کا نباض ہے اور اس وقت حکیم جالینوس کا کردار جسٹس منیر نے ادا کیا جو نئے پاکستان میں ایک بار پھر جلوہ گر ہوئے ہیں۔ جنابِ من! ہم تو 1958 میں بھی آزاد ہوئے اور 1965 کے صدارتی انتخابات میں بھی محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دے کر کراچی کی سڑکوں پر یومِ آزادی منایا گیا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ایک یوم آزادی 14 اگست 1971 کو بھی منایا گیا کہ جب وطنِ عزیز دونوں حصوں کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع ہوچکی تھی اور اس یوم آزادی کا بقیہ حصہ 16 دسمبر 1971 کو پلٹن میدان میں وقوع پذیر ہوا۔ عزم و ہمت سے گندھی قوم نے ہر حالت میں یوم آزادی منایا، چاہے وہ قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کا محکمہ زراعت کے اہلکار کو سرزنش کے حوالے سے لاہور کے ایک منصف کو یہ پیغام ہو کہ ابھی ’’ہم جنگل سے باہر نہیں نکلے‘‘ یا پھر مردِ مومن کا ایک صحافی کو دیا گیا جواب ’’سیاچن لے کر کیا کرنا ہے، وہاں تو گھاس کی پتی بھی نہیں اگتی،‘‘ ہی کیوں نہ ہو۔

یوم آزادی ہر سال اپنی شان سے آتا ہے مگر تھر کے غریب سے لے کر جاتی امرا کے امیر تک، سب پر یوم آزادی کی حقیقت جداگانہ طریقے سے منکشف ہوتی ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ جب لگا، اس برس بھی یوم آزادی کی خوشیاں جلوہ گر ہوئیں لیکن اُس دور میں لوگوں کو وہاں سے مارا گیا کہ انہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ انہیں کہاں سے مارا جارہا ہے؟ پاکستان کا خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوتے وقت بھی یہی محسوس ہوا تھا کہ اب شاید ہم زندہ و پائندہ اقوام کی مانند یوم آزادی منا سکیں گے مگر اس وقت قومی مفاہمت آڑے آگئی۔

مشہور امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کی سواری کے جانور کو بھی یہ پتا تھا کہ اس جنگل میں رکنا ٹھیک نہیں کیونکہ نظم کے مرکزی کردار کو گھر جاکر بہت سے وعدے پورے کرنے ہیں۔ مگر من حیث القوم ہمیں تو اتنی سوجھ بوجھ بھی نہیں کہ اپنے اسٹیج کے مرکزی کرداروں کا انتخاب خود کرسکیں؛ لہذا ایک جمہوری و امن پسند قوم ہونے کا ثبوت دینے کےلیے ہمارے حکمرانوں کا تعین پہلے ہی کرلیا جاتا ہے۔ اور یوں 5 سال کےلیے سرکاری سطح پر یوم آزادی منانے کا انتظام ہوجاتا ہے۔ ہمارے پاس تاریخ کا ہر کردار موجود ہے جس کا یوم آزادی منانے کا طریقہ قوم سے حیرت انگیز طور پر مطابقت رکھتا ہے۔

صاحبو! اب نیا چلن ہے۔ کوئی یوم آزادی عوام کے درمیان منانا چاہتا ہے تو کوئی عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کروانے کی خاطر منانا چاہتا ہے۔ جیت کا جنون کہیں ہوش مندوں پر غالب آچکا ہے تو کہیں داراشکوہ اور منصور حلاج کی روایت دہرائی جارہی ہے۔ لیکن یوم آزادی کا سوال اب بھی موجود ہے۔ کیا آزادی اور اس کا اظہار اسی طرح ہوتا ہے جس طرح گزشتہ ستّر برسوں میں ہم سے کروایا گیا ہے؟ یا آزادی کی قیمت دے کر حاصل کیے جانے والے ملک میں اس کے باشندوں کو آزادی کی ضمانت دینا آزادی ہے؟ کیا آزادی اظہار رائے پر قدغن لگا کر ایک مخصوص طریقے سے یوم آزادی منایا جائے یا پھر اپنی کہی ہوئی باتوں سے رجوع کرتے ہوئے اقتدار کی قیمت پر یوم آزادی منایا جائے؟

یوم آزادی تو بہر صورت منالیا جائے گا لیکن کیا اسے ’’صرف ایک اور یوم آزادی‘‘ نہیں کہا جائے گا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

منیب الحسن رضا

منیب الحسن رضا

بلاگر سیاسی اور سماجی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے رہتے ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل سے بھی منسلک ہیں اور جامعہ کراچی سے ایم اے اردو ادب میں طلائی تمغہ حاصل کرچکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔