- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو کچلنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
- امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل کیخلاف ہزاروں طلبہ کا مظاہرہ، درجنوں گرفتار
- نکاح نامے میں ابہام یا شک کا فائدہ بیوی کو دیا جائےگا، سپریم کورٹ
- نند کو تحفہ دینے کے ارادے پر ناراض بیوی نے شوہر کو قتل کردیا
- نیب کا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا نوٹس
- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
ایک اور یومِ آزادی
جے ایس مل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’آزادی‘‘ میں انسان کے آزاد ہونے کےلیے جو شرائط متعین کی ہیں، ان کا اطلاق اگر پاکستانی قوم پر کیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم آزاد تو ہیں لیکن آزادی کے کلیدی اصولوں اور مبادیات پر پورے نہیں اُترتے۔ 1947 میں آزادی حاصل تو کرلی مگر کس سے؟ آئیے، اس سوالِ لایعنی و معنی کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
3 جون کے منصوبے کی اگر بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت الحاق کی جو شرائط ہندوستان میں موجود تمام ریاستوں کے سامنے رکھی گئیں، ان پر دونوں ہی آزاد ہونے والے ممالک (بھارت، پاکستان) عمل پیرا ہونے میں ناکام رہے؛ اور چاہنے کے باوجود کسی بھی ریاست کی خود مختاری برقرار نہ رہی۔ وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہو، اسے پہلی شکست سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
کشمیر میں فوج کشی کے معاملے پر آزادی کو ایک اور ضرب لگی اور دونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل وجہ تنازعہ پیدا کر دی گئی۔ قراردادِ مقاصد پیش کرتے وقت آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ راولپنڈی سازش کیس میں بھی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلہ ہوا اور ہم آزاد ہونے سے بال بال بچ گئے۔ مولوی تمیزالدین کیس کا فیصلہ تو ہماری عدالتی تاریخ کا نباض ہے اور اس وقت حکیم جالینوس کا کردار جسٹس منیر نے ادا کیا جو نئے پاکستان میں ایک بار پھر جلوہ گر ہوئے ہیں۔ جنابِ من! ہم تو 1958 میں بھی آزاد ہوئے اور 1965 کے صدارتی انتخابات میں بھی محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دے کر کراچی کی سڑکوں پر یومِ آزادی منایا گیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ایک یوم آزادی 14 اگست 1971 کو بھی منایا گیا کہ جب وطنِ عزیز دونوں حصوں کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع ہوچکی تھی اور اس یوم آزادی کا بقیہ حصہ 16 دسمبر 1971 کو پلٹن میدان میں وقوع پذیر ہوا۔ عزم و ہمت سے گندھی قوم نے ہر حالت میں یوم آزادی منایا، چاہے وہ قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کا محکمہ زراعت کے اہلکار کو سرزنش کے حوالے سے لاہور کے ایک منصف کو یہ پیغام ہو کہ ابھی ’’ہم جنگل سے باہر نہیں نکلے‘‘ یا پھر مردِ مومن کا ایک صحافی کو دیا گیا جواب ’’سیاچن لے کر کیا کرنا ہے، وہاں تو گھاس کی پتی بھی نہیں اگتی،‘‘ ہی کیوں نہ ہو۔
یوم آزادی ہر سال اپنی شان سے آتا ہے مگر تھر کے غریب سے لے کر جاتی امرا کے امیر تک، سب پر یوم آزادی کی حقیقت جداگانہ طریقے سے منکشف ہوتی ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ جب لگا، اس برس بھی یوم آزادی کی خوشیاں جلوہ گر ہوئیں لیکن اُس دور میں لوگوں کو وہاں سے مارا گیا کہ انہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ انہیں کہاں سے مارا جارہا ہے؟ پاکستان کا خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوتے وقت بھی یہی محسوس ہوا تھا کہ اب شاید ہم زندہ و پائندہ اقوام کی مانند یوم آزادی منا سکیں گے مگر اس وقت قومی مفاہمت آڑے آگئی۔
مشہور امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کی سواری کے جانور کو بھی یہ پتا تھا کہ اس جنگل میں رکنا ٹھیک نہیں کیونکہ نظم کے مرکزی کردار کو گھر جاکر بہت سے وعدے پورے کرنے ہیں۔ مگر من حیث القوم ہمیں تو اتنی سوجھ بوجھ بھی نہیں کہ اپنے اسٹیج کے مرکزی کرداروں کا انتخاب خود کرسکیں؛ لہذا ایک جمہوری و امن پسند قوم ہونے کا ثبوت دینے کےلیے ہمارے حکمرانوں کا تعین پہلے ہی کرلیا جاتا ہے۔ اور یوں 5 سال کےلیے سرکاری سطح پر یوم آزادی منانے کا انتظام ہوجاتا ہے۔ ہمارے پاس تاریخ کا ہر کردار موجود ہے جس کا یوم آزادی منانے کا طریقہ قوم سے حیرت انگیز طور پر مطابقت رکھتا ہے۔
صاحبو! اب نیا چلن ہے۔ کوئی یوم آزادی عوام کے درمیان منانا چاہتا ہے تو کوئی عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کروانے کی خاطر منانا چاہتا ہے۔ جیت کا جنون کہیں ہوش مندوں پر غالب آچکا ہے تو کہیں داراشکوہ اور منصور حلاج کی روایت دہرائی جارہی ہے۔ لیکن یوم آزادی کا سوال اب بھی موجود ہے۔ کیا آزادی اور اس کا اظہار اسی طرح ہوتا ہے جس طرح گزشتہ ستّر برسوں میں ہم سے کروایا گیا ہے؟ یا آزادی کی قیمت دے کر حاصل کیے جانے والے ملک میں اس کے باشندوں کو آزادی کی ضمانت دینا آزادی ہے؟ کیا آزادی اظہار رائے پر قدغن لگا کر ایک مخصوص طریقے سے یوم آزادی منایا جائے یا پھر اپنی کہی ہوئی باتوں سے رجوع کرتے ہوئے اقتدار کی قیمت پر یوم آزادی منایا جائے؟
یوم آزادی تو بہر صورت منالیا جائے گا لیکن کیا اسے ’’صرف ایک اور یوم آزادی‘‘ نہیں کہا جائے گا؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔