کھلاڑی جی، کھیل کے میدان بھی آباد کروادیجیے!

آصف زیدی  جمعـء 17 اگست 2018
بچوں  کو بہتر طرز زندگی، اچھا اور صحت مندانہ ماحول اور معیاری تعلیم و تربیت دینا ارباب اقتدار کا فرض ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

بچوں کو بہتر طرز زندگی، اچھا اور صحت مندانہ ماحول اور معیاری تعلیم و تربیت دینا ارباب اقتدار کا فرض ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

چند روز قبل روزنامہ ایکسپریس میں ہی ایک تصویر دیکھی کہ کچھ بچے گورا قبرستان میں قبروں کے درمیان کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ یہ تصویر دیکھ کر طبیعت بوجھل بوجھل سی ہوگئی۔ کیونکہ یہ تصویر فوٹو گرافر کی جانب سے کھینچی گئی عام تصویر نہیں تھی بلکہ اس میں ہمارے قومی نظام کی صورتحال، انداز حکمرانی کی پستی، عوام کی حالت زار اور ارباب اختیار و اقتدار کی جانب سے مستقبل کے معماروں کو یکسر نظرانداز کرنے کا عکس بہت نمایاں تھا۔

اس تصویر پر بات کی جائے تو شاید طویل بحث و مباحثہ بھی مختصر لگے گا، لیکن اگر اختصار سے کام لیا جائے تو حاکموں کےلیے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’عوام کےلیے کچھ تو کر جاؤ۔‘‘

ساحر لدھیانوی شاید ایسے ہی حالات کےلیے کہہ گئے ہیں کہ

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں کی بات کیا کی جائے، اگر قوم کے معماروں کےلیے کھیل کے میدان بھی ارباب اختیار مہیا نہیں کرسکتے تو اُن سے اور کیا مانگیں؟ یہ ہمارے لیے افسوس کی بات ہے؛ لیکن حکمرانوں کو اس پر شرم آنی چاہیے۔ اب ماشاء اللہ معروف کرکٹر عمران خان حکومت سنبھالنے جارہے تو ہمیں امید کرنی چاہیے کہ ملک کے نوجوانوں کو کھیلوں کےلیے میدان میسر آئیں گے اور انہیں قبروں کے درمیان کھیلنا نہیں پڑے گا۔

قیام پاکستان کے وقت 1947 میں دستور ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا: ’’اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں بالخصوص غریب افراد کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی۔‘‘

بابائے قوم تو بہت دُور اندیش تھے، انہوں نے غریبوں کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح اس لیے قرار دیا تھا کیونکہ انہیں خبر تھی کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ہوگی تو معاشرہ خودبخود ترقی کے مدارج طے کرے گا۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے دیگر بہت سے فرامین، نصیحتوں اور اقوال کی طرح قائداعظم ؒ کی اس بات کو بھی صرف پڑھنے کی حد تک اہم قرار دیا۔

بچوں کو مستقبل کا معمار کہا جاتا ہے، اُن کو بہتر طرز زندگی، اچھا اور صحت مندانہ ماحول اور معیاری تعلیم و تربیت دینا ارباب اقتدار کا فرض اور اُن بچوں کا حق ہے۔ بیان بازی کی حد تک اس پر بہت توجہ دی جاتی ہے اور دی جارہی ہے، لیکن جب حقائق پر نظر ڈالیں تو معیاری تعلیم و تربیت کے نام پر بغیر چھتوں کے ٹوٹے ہوئے اسکول، اساتذہ کے بغیر بوسیدہ تعلیمی ادارے، غلاظت سے لتھڑے ہوئے رہائشی علاقے، کھیل کود کےلیے میدانوں اور پارکوں کے بجائے گنجان آباد علاقے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، اچھے کاموں کے بجائے جرائم کی جانب راغب کرنے والے عناصر زیادہ نظر آتے ہیں؛ تو سمجھ جانا چاہیے کہ ملک کا مستقبل انتہائی خطرے میں ہے۔

کہتے ہیں کہ انسان کی آخری منزل قبر ہوتی ہے، یہ سچ ہے، لیکن کیا زندگی بھر ہمارے بچے اپنا وقت بھی ان قبروں کے درمیان گزاریں؟ ایسے میں تو حکمرانوں کی تصاویر اور حکومتوں کی کارکردگی دیکھ کر ٹھنڈی سانس ہی بھری جاسکتی ہے۔

کسی نے کہا ہے کہ ’’خاموشیاں بے وجہ نہیں ہوتیں، کچھ درد آواز چھین لیتے ہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ اگر عوام اور خاص طور پر قوم کے بچے کچھ مانگے بنا اپنی دُھن میں مگن ہیں تو یہ نہ سمجھا جائے کہ انہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔

حضرت علی ؓ  سے منسوب قول ہے: ’’جو ظلم کے ذریعے عزت چاہتا ہے اللہ اُسے انصاف کے ذریعے ذلیل کرتا ہے۔‘‘

اس قول میں حکمرانوں کےلیے بہت بڑی نصیحت اور صحیح انداز حکمرانی کی تنبیہہ موجود ہے، اگر کوئی غور کرے تو!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف زیدی

آصف زیدی

صحافی و شاعر آصف زیدی گز شتہ 23 سال سے میدان صحافت میں ہیں۔ روزنامہ قومی اخبار، جرأت، کائنات، دن، روزنامہ ایکسپریس اور جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک میں مختلف عہدوں پر کام کرچکے ہیں۔ سب ایڈیٹر، سینئر سب ایڈیٹر، سینئر کونٹینٹ رائٹر کی حیثیت سے صحافتی شعبے میں کام کیا۔ مختلف موضوعات پر درجنوں آرٹیکلز لکھے۔ روزنامہ ایکسپریس میں ’’خیال آرائی ‘‘ کے عنوان سے کالم نگاری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس وقت روزنامہ ایکسپریس کراچی میں بطور شفٹ انچارج خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔