ہار کر جیتو!

حرا احمد  ہفتہ 18 اگست 2018
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جس نے کبھی ہار کا سامنا نہ کیا ہو۔ فوٹو: انٹرنیٹ

دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جس نے کبھی ہار کا سامنا نہ کیا ہو۔ فوٹو: انٹرنیٹ

جب تک آپ خوف کا سامنا نہیں کرتے، تب تک وہ خوف آپ سے دور نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں کہ ڈر کے آگے جیت ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا۔ یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ بار بار کوشش کرو؛ یہاں تک کے تم کامیاب ہوجاؤ۔ اور یہ بھی بولا جاتا ہے جو جیتا وہی سکندر۔ یہ سارے ایسے محاورے ہیں جو اکثر و بیشتر سننے میں آتے ہیں۔ ان محاوروں کا مقصد دوسروں کی ہمت بندھانا ہوتا ہے۔ یہ کہاوتیں تجربات کی روشنی میں تخلیق پائی ہیں۔

یہ ممکن ہے وہ ان کو موت کی سرحد پہ لے جائیں
پرندوں کو مگر اپنے پروں سے ڈر نہیں لگتا

سب کچھ کر سکنے کے باوجود کچھ نہ کر پانے کی اصل وجہ خوف ہے۔ خوف پر قابو پانا اور ڈر کا سامنا کر کے جیت کو حاصل کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ دنیا میں بہت سارے انسان ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہمیں جلد از جلد کامیابی مل جائے۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ انسان ناکامی سے ہی سیکھتا ہے۔ دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جواپنی زندگیوں کا ایک بڑا حصہ دے کر جیت کی خوشی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔

وہ ڈر کے آگے نکل جائے گا اگر یوں ہی
تو جیت پاؤں کو چومے گی عمر بھر یوں ہی

دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جس نے کبھی ہار کا سامنا نہ کیا ہو۔ ناکامی خود بہت بڑی استاد ہے۔ جیمز جے والٹن جو کہ آئی بی ایم کا بانی ہے کا کہنا ہے کہ اگر آپ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر ناکامیوں کو دوگنا کریں، کیونکہ کامیابی ناکامی کے دوسرے سرے پر موجود ہوتی ہے۔ اپنی ناکامیوں سے سیکھنے والے کامیابیوں کی راہگزر پر گامزن ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ارنسٹ ہیمنگوے نے کہا تھا کہ انسان تباہ تو ہو سکتا ہے لیکن ہار نہیں سکتا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ انسان کے اندر ناکامی کا خوف اس کے گلے کا طوق بن جاتا ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔

عام طور پر انسانوں کے اندر خوف میں مبتلا ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔

آپ کے اندر خوف کی ایک بڑی وجہ احساس کمتری ہے۔ جب آپ دوسرں کے مقابلے میں خود کو کمتر اور قابل رحم سمجھنے لگ جاتے ہیں تو لوگ آپ سے ہمدردی کی بجائے آپ پر ہنستے ہیں، آپ کو اور زیادہ احساس کمتری کا شکار کرتے ہیں۔ آپ کے اندر جتنا بھی ٹیلنٹ ہو وہ آپ کی احساس کمتری کی وجہ سے باہر نہیں نکل پاتا، اندر ہی دب کر رہ جاتا ہے۔ یہ ناکامی کا ہی خوف ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی زندگی کے اہداف طے کرنے سے کنی کتراتے ہیں۔

ناکامی کی دوسری بڑی وجہ اعتماد میں کمی ہے۔ اعتماد کی کمی مشکل حالات میں آپ کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ جب ہم ٹھیک طرح کسی صورت حال میں سے نکلنے کی کوئی واضح اور ٹھوس کوشش نہیں کر پاتے تو ایسی صورت میں ہمارے اعتماد میں مزید کمی واقع ہوتی ہے۔ جب آپ میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے اور آپ ٹھیک طرح اپنے آپ کو ڈیفنڈ نہیں کر پاتے تو لوگ آپ کو قبول نہیں کرتے؛ اس طرح آپ میں رد کئے جانے کا خوف بڑھ جاتا ہے۔

ناکامی کی تیسری بڑی وجہ منفی سوچ ہے۔ ہمیشہ مثبت سوچنے والے زندگی کے میدانوں میں بڑے سے بڑا معرکہ بھی سر کر جاتے ہیں۔ منفی سوچ نہ صرف آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہے، بلکہ آپ کے کچھ کرنے کے جذبے کو بھی ختم کر دیتی ہے۔

اگر آپ اپنی ناکامی کے خوف پر قابو پانا چاہتے ہیں تواپنے خوابوں کی تعمیر کےلیے ناممکنات سے ممکنات تک کا سفر کریں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہنری فورڈ کا کہنا ہے: ’’ناکامی آپ کو ذہین ہونے کا موقع دیتی ہے۔‘‘

اپنے اندر کے خوف پر قابو پانے اور کامیاب ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کام کو بار بار کریں جس میں آپ ناکام ہونے سے ڈرتے ہیں؛ یہاں تک کہ کامیاب ہو جائیں۔ بے خوف و خطر ہو کے اپنے کام کے آگے ڈٹ جائیں اور اپنی منزل کو حاصل کرنے کے لیے جان کی بازی لگا دیں۔ اپنے آپ کو ایمان دار بنائیں۔ اللہ پر ایمان و توکل کریں۔ اپنا کام پوری ذمہ داری اور ایمانداری سے کریں۔ اپنے رویے کو بہتر بنائیں تاکہ آپ ذہنی سکون میں رہیں اور اپنا کام احسن طریقے سے سر انجام دے سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حرا احمد

حرا احمد

مصنفہ نوجوان بلاگر اور افسانہ نگار ہیں۔ لکھنے اور پڑھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ عوامی مسائل بالخصوص خواتین کے مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کمپیوٹرسائنس میں فارغ التحصیل ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ٹیچر اور موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔