روبوٹس پاکستان میں!

سید بابر علی  اتوار 19 اگست 2018
پاکستان میں اس شعبے کی تعلیم، روبوٹس کی تیاری اور استعمال کے بارے میں دلچسپ فیچر۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں اس شعبے کی تعلیم، روبوٹس کی تیاری اور استعمال کے بارے میں دلچسپ فیچر۔ فوٹو: فائل

روبوٹ ایک ایسا نام ہے جس کے بارے میں ہر فرد کا خیال دوسرے سے مختلف ہے۔ کچھ کے نزدیک روبوٹ مستقبل میں انسانوں کو کاہل بنادیں گے تو کچھ کے خیال میں اگر زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ان کا استعمال عام ہوگیا تو اس سے بے روز گاری میں اضافہ ہوگا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، کیوں کہ روبوٹس کو بنانے، ان کی اسمبلنگ، پروگرامنگ انسانی مدد کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں، روبوٹ انسانوں کے حکم پر چلنے والی مشین ہے جو اپنے فیڈ کیے گئے پروگرام کے تحت سارے کام سرانجام دیتی ہے۔

پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت تاخیر سے کیا جا رہا ہے۔ تاہم حالیہ چند برسوں میں پاکستان میں روبوٹکس کی تعلیم اور تربیت دینے والے اداروں کی تعداد میں اضافہ اور کچھ نجی اسکول اور جامعات میں طلبا کو روبوٹ بنانے کی باقاعدہ تربیت دینے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ تاہم ملک کی زیادہ تر جامعات اور اسکولوں میں بنیادی یا کھلونا روبوٹ تیار کیے جا رہے ہیں، لیکن کچھ ادارے اور افراد ایسے بھی ہیں جو قدرتی آفات اور دفاعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے روبوٹس کو مکمل طور پر پاکستان میں تیار کر رہے ہیں۔ اس بارے میں ہم نے ماہرین سے گفتگو کی۔

٭ڈاکٹر محمد بلال قادری

پی ایچ ڈی انجینئرنگ سائنس، آکسفورڈ یونیورسٹی لندن

ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ میکاٹرونکسPAF-KIET

دنیا بھر میں سالوں سے روبوٹکس پر بہت کام ہورہا ہے ، گذشتہ چند سالوں میں پاکستان میں بھی اس سمت میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ بہت ساری جامعات میں میکاٹرونکس (روبوٹکس میکاٹرونکس کا ایک اہم شعبہ ہے) کے ڈگری پروگرام شروع کیے گئے ہیں، لیکن زیادہ تر جامعات میں یا تو کھلونا روبوٹ جنہیں ہم لیگو روبوٹ بھی کہتے ہیں پر کام ہو رہا ہے یا پھر باہر سے بنے بنائے روبوٹ منگوا کر طلبا کو اس پر سکھا یا جا رہا ہے۔

اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ روبوٹس کی تیاری میں استعمال ہونے والے سینسرز، سرکٹ او پروگرامنگ کا کام بہت مہنگا ہے جو کہ طلبا اپنی جیب سے نہیں کرسکتے۔ اور رہی بات یونیورسٹی کی جانب سے فنڈنگ کی تو دنیا بھر میں کہیں بھی یونیورسٹیاں کسی بھی ریسرچ گروپ کو بہت بڑی فنڈنگ نہیں کرتیں۔ اس کے لیے کچھ اسپن آؤٹ کمپنیاں ہوتی ہیں جو طالب علموں کو ریسرچ کے لیے فنڈز فراہم کرتی ہیں، لیکن پاکستان میں نجی شعبے کی جانب سے ایسی کوئی سپورٹ موجود نہیں ہے۔ میں نے چار سال آکسفورڈ یونیورسٹی میں گزارے وہاں سب سے بڑی فنڈنگ ای ایس پی آر سی کی تھی، یہ ادارہ ہمارے ہائر ایجو کیشن کمیشن کی طرز کا ادارہ ہے۔

دو، تین سال قبل تک ہمارے پاس بھی فنڈز نہیں تھے لیکن پھر ہم نے ایک حکومتی ادارے اگنائٹ کو اپنا ریسرچ پروپوزل بھیجا کہ ہم قدرتی آفات اور دفاعی مقاصد میں استعمال ہونے والے بڑے روبوٹ پر کام کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے ہمیں فنڈز مہیا کیے جائیں۔ 14جولائی 2016کو ہم نے اگنائٹ کو قدرتی آفات اور فائر فائٹنگ کے لیے انٹیلی جینٹ موبائل روبوٹ (آئی ایم آرز) کے ڈیزائن اور ڈیویلپمنٹ کے لیے پہلا ڈلیور ایبل جمع کروایا۔ انہوں نے اپنی تمام کارروائی مکمل کرکے اس پراجیکٹ کے لیے ایک کروڑ سینتالیس لاکھ روپے کا فنڈ منظور کیا۔

اس کے بعد ہم نے فائر فائٹنگ روبوٹ بنانے کا پراجیکٹ شروع کیا۔ اس طرح کے روبوٹس برطانیہ اور جرمنی میں بنتے ہیں اور اگر انہیں پاکستان درآمد کیا جائے تو ان کی لاگت تقریباً پانچ کروڑ روپے آتی ہے۔

یہ روبوٹس فائر فائٹنگ کے علاوہ بم ڈسپوزل کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی طرح جرمنی کے پیراشے گوفر روبوٹس بھی اسی کام کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن ان کی قیمت برطانوی روبوٹس سے بھی زیادہ ہے تو ہمارا پروجیکٹ پاکستان میں اس جیسے روبوٹس تیار کرنا تھا۔ اسی کام کے لیے ہمیں دو سال کی فنڈنگ ہوئی تھی، جس کے بعد ہم نے ایک پوری ٹیم ہائر کی جس میں انجینئرز، ریسرچ ایسوسی ایٹس اور طلبا شامل تھے۔ مقررہ مدت میں ہم نے روبوٹ ڈیویلپ کیے اور رواں سال مارچ میں ان کا کام یاب تجربہ بھی کیا۔

اس تمام عرصے میں ہماری پوری ٹیم اور طلبا کو بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اس کے ساتھ ہم نے دوسرے چھوٹے روبوٹس پر بھی اپنا کام جاری رکھا۔ ہم نے جو فائر فائٹنگ روبوٹ تیار کیا ہے مقامی سطح پر اس کی لاگت تیس لاکھ روپے تک آئی ہے، جب کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس طرح کے روبوٹ کی قیمت پانچ کروڑ روپے تک ہے۔ کچھ ایسے بورڈ اور سینسر جن کی ٹیکنالوجی پاکستان میں دست یاب ہی نہیں ہے، ہمیں باہر سے خریدنے پڑے۔ تاہم ہارڈویئر ڈیوائسز کے علاوہ الگورتھم، سرکٹ ڈیزائن، میکنیکل ڈیزائن، پروگرامنگ مکمل طور پر ہماری ہے۔

ان روبوٹس کی تیاری کے ساتھ ہم ہر تین ماہ بعد اگنائٹ کو اپنے پراجیکٹ کی کارکردگی سے بھی آگاہ کرتے رہے۔ اگر دنیا کے دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو ابھی پاکستان اس معاملے میں بہت پیچھے ہے ۔ ہمارے ہاں ابھی بھی مارکیٹ میں موجود کمرشیل روبوٹس بہت بنیادی اور کھلونا ٹائپ ہیں، صنعتی اور کمرشل مقاصد میں استعمال ہونے والے روبوٹس یا روبوٹکس آرمز ابھی تک پاکستان میں بننا شروع نہیں ہوئے ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ وسائل کی عدم دست یابی ہے۔ جہاں وسائل استعمال ہونے چاہییں وہاں استعمال ہو ہی نہیں رہے، حکومتی سطح پر کوئی سپورٹ نہیں ہے۔

ہماری فنڈنگ بنیادی روبوٹ کی تیاری تک تھی لیکن اب میں اپنے روبوٹس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا چاہتا ہوں، مزید جدت لانا چاہتا ہوں، لیکن اس کے لیے حکومت فنڈ دینے کو تیار نہیں ہے۔ ہمارے پاس قابل لوگ ہیں، ذہین طالب علم ہیں لیکن وسائل نہیں ہیں۔ نجی شعبہ اس پر خرچ کرنے کو تیار نہیں ہے، کیوںکہ وہ باہر سے بنی بنائی چیز منگوا لیتے ہیں۔ خرابی کی صورت میں باہر سے ہی بندہ آکر اسے ٹھیک کردیتا ہے۔

وہ پاکستانیوں پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جب ہم نے فائر فائٹنگ روبوٹ کا آئیڈیا پیش کیا تو اس میں محکمۂ فائر بریگیڈ نے دل چسپی ظاہر کی اور انہوں نے ہمیں ایک لیٹر بھی جاری کیا کہ اگر یہ روبوٹ پاکستان میں بن جاتے ہیں تو پھر یہ ہمارے لیے بہت سودمند ثابت ہوں گے، کیوں کہ بہت سی جگہوں پر فائرفائٹر کی زندگی کو لاحق خطرات کے پیش نظر آگ بجھانا ممکن نہیں ہوتا۔ ہماری یونیورسٹی کے صدر جوریٹائر ایئر وائس مارشل ہیں، انہوں نے اس پراجیکٹ کو دیکھ کر کہا کہ یہ بہت شان دار چیز ہے اور ایئرفورس میں اس کا بہت اچھا استعمال ہوسکتا ہے۔

فائر فائٹنگ روبوٹ کی تجرباتی آزمائش کے لیے ہم نے ایک کھلے میدان میں آگ لگائی اور ان روبوٹس نے مصنوعی ذہانت اور تھرمل امیجنگ سینسز کی بدولت نہ صرف آگ کی شدت اور مقام کا تعین کیا، بل کہ راستے میں حائل رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے آگ کے مقام پر پہنچ کر اسے کام یابی سے بجھایا۔ فی الحال یہ روبوٹ دوسرے درجے تک کی آگ کو بجھانے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم اس سے زیادہ شدت کی آگ بجھانے کے لیے اسے آگ سے تحفظ فراہم کرنے والے میٹیریل کی ضرورت پڑے گی جو کہ فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہم استعمال نہیں کرسکے ہیں۔

عموماً فائرفائٹنگ روبوٹس کو اس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ وہ پانی کی دیوار بناکر چلتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آگ کی شدت سے کافی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔ اس روبوٹ میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ تھرمل امیجنگ کی وجہ سے آگ کی شدت کا تعین کرکے اس بات کا فیصلہ بھی کرتا ہے کہ اس کا پروگرام اور باڈی اس آگ کی شدت برداشت کرسکتی ہے یا نہیں۔

٭سلمان مصطفی (ڈائریکٹر ایلفا اسکول)

نجی جامعات کے ساتھ کچھ ایسے اسکول بھی ہیں جہاں طلبا کو تعلیم کے ساتھ عملی تربیت بھی دی جا رہی ہے، تا کہ بچے صرف اسناد حاصل کرنے تک محدود نہ رہیں، بل کہ عملی زندگی میں بھی مثبت کردار ادا کرسکیں، جدید دور کے تقاضوں کو نبھانے کے علاوہ، مستقبل کے اچھے لیڈر بن سکیں، یا جس شعبے میں بھی جانا چاہتے ہیں، اس میں وہ اپنی صلاحیتیں صرف کرسکیں۔

ایلفا اسکول میں روایتی مضامین کے علاوہ روبوٹس، فارمولا کار، انکیوبیٹر، جیسے جدید شعبوں میں طلبا کی راہ نمائی کی جا رہی ہے۔ اسکول کی سطح پر بچوں کو روبوٹکس جیسی جدید تعلیم عملی شکل میں دیے جانے کی بابت ایلفا اسکول کے ڈائریکٹر سلمان مصطفی کا کہنا ہے،’’ہم اپنے ادارے میں بچوں کی صلاحیتوں پر تو کام کرتے ہی ہیں مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں، کہ ہمارے اردگرد کے بچوں کو تعلیم کے علاوہ کس طرح کے تعاون کی ضرورت ہے اور اپنی بساط کے مطابق ان کے کام آنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی ایک تازہ مثال نسٹ یونیورسٹی کے طلبا ہیں، جنہوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ فارمولا کار بنانا اور جرمنی میں منعقد ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے فارمولا کار شو میں شریک ہوکر پاکستان کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔

لہٰذا جہاں کئی اور ادارے ان کو اپنا تعاون فراہم کررہے تھے، وہیں ہم نے بھی اپنے حصے کا تعاون ان کو مہیا کیا اور اس خیال کو عملی جامہ پہنایا کہ ہم پاکستان میں ایک عام طالب علم، جس کے پاس وسائل کی کمی مگر صلاحیتیں بے پنا ہ ہیں، اس کے کام آسکیں ۔ فارمولا کار کے لیے طلبا کو اسپانسر شپ دینے کے پیچھے دو مقاصد تھے، ایک تو یہ کہ وہ ایک فارمولا کار بنائیں اور دوسرا یہ کہ دیگر طلبا کو بھی اس کی تربیت فراہم کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کار کو پاکستان میں ٹیسٹ کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے، کیوںکہ اس کا ایک خاص ٹریک ہوتا ہے، وہ پاکستان میں دست یاب نہیں ہے، اس لیے وہ طلبا اس کو کمپیوٹر کے ذریعے ٹیسٹ کرکے جرمنی لے جائیں گے۔

ہمیں بچوں کو یہ سبق دینا ہے اگر تم خواب دیکھتے ہو تو وہ پورے بھی ہوسکتے ہیں۔ ہم نے ان بچوں سے کہا کہ ہم آپ کو تعاون فراہم کریں گے، لیکن اس کے بدلے آپ ہمارے بچوں کو بھی یہ کار بنانے کی تربیت دیں، کیوں کہ نئی نسل کو دورجدید کے ان تمام کاموں سے واقف ہونا چاہیے۔ چوں کہ پاکستان میں اس طرح کی سہولتیں کم ہیں، اس لیے ہم مقامی وسائل کے ساتھ کوشش کر رہے ہیں کہ بچوں کو عالمی سطح کی تعلیم اور تربیت فراہم کرسکیں، فارمولا کار کی اسپانسرشپ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہمارے طلبا روبوٹکس کے شعبے میں بھی کام کر رہے ہیں، اور ان کی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کرنے کے لیے مستقبل قریب میں ہمارا تھری ڈی پرنٹرز لگانے کا ارادہ ہے، تاکہ طلبا اس جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھی مستفید ہوسکیں۔

روبوٹکس کے حوالے سے بچوں میں دل چسپی پیدا کرنے کے لیے ہم روبوٹس کے مقابلے منعقد کرتے ہیں۔ ہم نے اس طرح کا ایک مقابلہ منعقد کیا، جس میں بچوں نے اپنے اسمارٹ فونز کے ذریعے روبوٹس کو چلایا۔ ہمارا مقصد یہی ہے کہ وہ اس سرگرمی کے ذریعے، روبوٹس کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو اور نکھاریں۔ صرف روبوٹ بناکر نمائش کے طور پر رکھ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ہم نے نئی جہتیں دریافت کیں، اس حوالے سے مزید کئی منصوبے ہمارے ذہن میں ہیں، جن کے ذریعے ہمارے طلبا اس شعبے میں لوگوں کو حیران کردیں گے۔

ہمارے ہاں ایک اور آئیڈیا انکیوبیٹر کا ہے، پاکستان میں یہ ابھی ابتدائی دور میں ہے، ہم اس حوالے سے بھی کام کررہے ہیں، صرف کسی ادارے کا ملازم ہوجانا کافی نہیں، بل کہ نوجوان آئیڈیاز پر کام کریں تاکہ ان کی تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھیں، یوں تعلیم کے ساتھ طالب علم عملی طور پر اپنے شعبے سے جُڑسکیں گے۔ عہدِحاضر کے جدید تقاضوں کے مطابق اپنے طلبا کو تربیت دینا ہمارا ویژن ہے، صرف سند حاصل کرلینا کوئی بات نہیں ہوتی، بل کہ عملی طور پر کام یاب ہونا اصل بات ہے۔ تعلیم صرف یہ نہیں ہے، رٹا لگا کر پاس ہوگئے اور بس، بل کہ طالب علم کا دماغ کُھلنا چاہیے، تاکہ وہ نئے آئیڈیاز پر کام کرے، اس کے بعد سوچیں، یہی طالب علم جب یونیورسٹی کی سطح پر جائے گا یا پھر عملی زندگی میں، تو اس کے دل ودماغ میں کوئی خوف نہیں ہوگا۔

٭ محمدوقاص(اسسٹنٹ مینیجر میکاٹرونکس)

محمد وقاص ایک نجی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ مینیجر میکاٹرونکس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ روبوٹکس کے لیے جامعات کی سطح پر فنڈنگ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ عموماً یونیورسٹیز ریسرچ پراجیکٹس میں طالب علموں کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کرتیں، لیکن اگر کسی طالب علم کا ریسرچ ماڈل واقعی بہت اچھا ہو تو ہم کافی حد تک اس کی مدد کردیتے ہیں۔ بنیادی طور پر روبوٹکس، میکاٹرونکس کا ایک اہم جُز ہے، میکاٹرونکس میکینیکل اور الیکٹرونکس کے اشتراک سے بننے والی ٹیکنالوجی کو کہا جاتا ہے۔ ابھی ہم ایک روبوٹک آرم پر کام کر رہے ہیں، جس کی بدولت تین سو ساٹھ ڈگری کے زاویے سے کسی بھی شے کو اٹھایا جاسکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت سے لیس یہ روبوٹک آرم خود سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر کسی بھی شے کی جسامت اور وزن کا اندازہ لگا کر اسی حساب سے اپنی طاقت کا استعمال کرسکتا ہے۔ اس روبوٹ کو قدرتی آفات اور دفاعی مقاصد میں ایسی جگہوں پر استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں انسانی دسترس نہ ہو یا وہاں انسانی جان کے ضیاع کا اندیشہ ہو۔ اس روبوٹ کو دنیا کے بیشتر ممالک میں بارودی سرنگوں کو ہٹانے، بارودی مواد کو تلف کرنے میں کام یابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر حکومتی سرپرستی کی جائے تو پاکستان میں بھی ان روبوٹک آرمز کو ان مقاصد میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ یونیورسل ہے، اگر آپ چاہیں تو اسے اُٹھاکر کسی بھی روبوٹ کے بنیادی ڈھانچے پر فٹ کرسکتے ہیں۔

پاکستان میں روبوٹکس کی تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔ پہلے ہمارے ہر بیچ میں دس، پندرہ طلبا ہوتے تھے، لیکن اب ہر بیچ میں 35 سے زاید طلبا انرول ہورہے ہیں۔ کچھ طلبا روبوٹس کی پروگرامنگ کی طرف جاتے ہیں، کچھ آٹومیشن کی طرف اور کچھ طلبا سرکٹ ڈیزائننگ میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ سب اپنے اپنے شعبے میں رہ کر کام کرتے ہیں، لیکن ایک روبوٹ کی تیاری میں ان سب کا برابر کا حصہ ہوتا ہے۔ روبوٹکس آرمز پر سب سے پہلی تحقیق کا آغاز بھی ہماری یونیورسٹی نے کیا۔ ہم نے ان کی تجارتی بنیادوں پر تیاری کے لیے کچھ اداروں سے رابطہ کیا، لیکن بات پروپوزل سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

٭  محمد ذیشان (فیکلٹی ممبر)

ایک نجی یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر محمد ذیشان گذشتہ تین سال سے روبوٹکس کی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی راہ نمائی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اس شعبے کی بابت ان کا کہنا ہے کہ ہم پہلے سمسٹر ہی سے طلبا کو عملی طور پر روبوٹ بنانے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ وہ پڑھی گئی چیزوں کے ساتھ عملی طور پر اس کا تجربہ حاصل کرسکیں۔ ابتدا میں ہم انہیں بنیادی روبوٹس (لیگو روبوٹس) تیار کرنے کے اسائنمنٹ دیتے ہیں، اس کے بعد ہم انہیں روبوٹ کی تھوڑی ایڈوانس شکل لائن فالوئنگ روبوٹس بنانے کا ٹاسک دیتے ہیں۔

بنیادی طور پر لائن فالوئنگ روبوٹ خالصتاً تجارتی مقاصد میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی ہوٹل انڈسٹری اور اسمبلی لائن پروڈکشن میں ان روبوٹس کا استعمال کام یابی سے کیا جا رہا ہے۔ ان روبوٹس کی پروگرامنگ میں کچھ مخصوص لائنوں کے بارے میں ہدایات فیڈ کردی جاتی ہیں کہ کس رنگ کی لائن پر چلنا ہے، کس رنگ کی لائن پر رُکنا ہے۔ اور پھر فرش پر اسی رنگ کی لکیریں کھینچ دی جاتی ہیں۔

روبوٹ فیڈ کی گئی معلومات کی بنیاد پر انہی لائنوں پر چلتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ریستورانوں میں ان روبوٹس کو ویٹرز کی جگہ کام یابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسے کھانے کی ٹرے پکڑا کر قطار میں چلنے کی ہدایت دی جاتی ہے اور پھر یہ اس لائن پر چلتا ہوا بتائی گئی میز پر پہنچ کر کھانا سرو کردیتا ہے۔ محمد ذیشان کا کہنا ہے کہ ہوٹل انڈسٹری کے علاوہ اس روبوٹ کو زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی کام یابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ یہ کم لاگت اور کم وقت میں تیار ہونے والا بہت ہی مفید روبوٹ ہے۔

کمپیوٹر اور موبائل ایپلی کیشن کی مدد سے استعمال ہونے والے لائن فالوئنگ روبوٹ میں مصنوعی ذہانت پیدا کرنے کے لیے خصوصی سینسر لگائے جاتے ہیں اور یہ سینسر ہی اسے لکیر کی شناخت کرنے میں مدد دیتے اور کسی رکاوٹ سے بچاؤ بھی فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے طلبا نے حال ہی میں ایک ایڈوانس لائن فالوئنگ روبوٹ تیار کیا ہے جس نے مختلف یونیورسٹیز کے درمیان ہونے والے روبو وار مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔

٭ معیز اللہ (موجد ’’مارخور روبوٹ‘‘)

معیز اللہ ایک نجی یونیورسٹی کے شعبہ میکاٹرونکس کے شعبے کے آخری سال میں زیرتعلیم ہیں۔ ملازمت کے ساتھ پڑھائی جاری رکھنے والے معیز اللہ نے اپنے فائنل ایئر کے پراجیکٹ میں ’مار خور‘ کے نام سے ایک دفاعی روبوٹ بنایا۔ سوا لاکھ روپے کی لاگت سے بننے والے اس روبوٹ کے ساتھ وہ ملک بھر میں ہونے والے روبوٹکس مقابلوں میں بھی شریک ہوئے۔

حال ہی میں انہوں نے اسلام آباد میں ہونے والے ایک مقابلے میں شرکت کی۔ ملک بھر کی پچیس جامعات کے درمیان ہونے والے اس مقابلے میں ان کے روبوٹ مار خور کی کارکردگی اور دفاعی صلاحیتوں کو مقابلے کے منتظمین اور شُرکا نے بہت سراہا۔ عین وقت پر ان کے روبوٹ کی بیٹری میں ہونے والی معمولی سی خرابی کی بنا پر وہ اول انعام تو حاصل نہیں کرسکے تاہم چوتھی پوزیشن لینے میں کام یاب رہے۔

’’مارخور‘‘ کے بارے میں معیز اللہ کا کہنا ہے کہ اس کو دفاعی مقاصد کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس کے اگلے حصے میں لگا تیزدھار ہتھیار پندرہ ہزار آر پی ایم (راؤنڈ پَر منٹ) کے حساب سے گھومتا ہے، جو اپنی زد میں آنے والی ہر رکاوٹ کو توڑتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ عموماً روبوٹ کی تیاری میں سب سے زیادہ لاگت اس کے سرکٹ اور پروگرامنگ پر آتی ہے لیکن مارخور میں اس کے برعکس ہوا، ہم نے سرکٹ وغیرہ سے زیادہ خرچہ اس کے اوپری ڈھانچے پر کیا ہے۔

اس کا ڈھانچا سو کلو گرام وزن اٹھا کر تیزرفتار سے آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معمولی سی تبدیلی کے ساتھ مارخور کو آگ بجھانے، زلزلے، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے مقابلے میں شریک دیگر طلبا نے اپنے روبوٹس کو تین چار ماہ کی مدت میں تیار کیا تھا، لیکن ہمیں دو ہفتے قبل اس مقابلے کا پتا چلا، جس کے بعد میں نے اپنے پورے گروپ کے ساتھ مل کر صرٖف ڈیڑھ ہفتے کی قلیل مدت میں اسے تیار کیا۔ معیز اللہ کا کہنا ہے کہ مستقبل میں وہ اسی شعبے میں تعلیم اور ملازمت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

٭ شاہ میر اعجاز

سولہ سالہ شاہ میر اعجاز ایلفا اسکول سائنس سوسائٹی کے صدر ہیں، ان کی دل چسپی کا محور روبوٹ ہیں اور اپنے اس شوق کے باعث وہ جامعات کی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔ ریاضی میں حد سے زیادہ دل چسپی رکھنے والے شاہ میر اپنی ٹیم کے ساتھ اب تک چھے روبوٹ بناچکے ہیں۔ اس بابت ان کا کہنا ہے کہ ہم آرڈینو بورڈ کی مدد سے روبوٹ بناتے ہیں۔ سرکٹ اور آئی سیز کے علاوہ روبوٹس کی ساری پروگرامنگ اور کنٹرولنگ ہم خود کرتے ہیں۔ روبوٹ بنانا میرے لیے ایک اسکل ہے اور ریاضی میں دل چسپی ہونے کی وجہ سے مجھے روبوٹ کی اسمبلنگ سے زیادہ پروگرامنگ میں مزہ آتا ہے۔

پروگرامنگ کے لیے ویسے تو آرڈینو کی اپنی لینگویج ہوتی ہے، لیکن میں زیادہ ترpython، C++اور ویژول بیسک استعمال کرتا ہوں۔ پہلا روبوٹ میں نے گذشتہ سال اسکول میں ہونے والے پہلے روبوٹک مقابلے ’روبووار‘ کے لیے بنایا تھا، اس کے بعد رواں سال جنوری میں دوسرا روبوٹ لمس یونی ورسٹی میں ہونے والے مقابلے ’سائی فائی‘ کے لیے تیار کیا، اس مقابلے میں ہماری ٹیم ٹاپ تھری میں رہی۔ حبیب یونیورسٹی میں ہونے والے مقابلے ’اومی گون‘ میں بھی ہم ٹاپ تھری میں رہے، جب کہ پی اے ایف چیپٹر میں منعقد ہونے والے روبوٹک مقابلے ’روبوسٹ‘ میں ہم تیسرے نمبر پر آئے۔

مستقبل کے حوالے سے شاہ میر کا کہنا ہے کہ ہم اسی سال ہونے والے روبوٹک فٹ بال مقابلے کے لیے مصنوعی ذہانت سے لیس ایسے روبوٹ پر کام کررہے ہیں جو حقیقی کھلاڑیوں کی طرح فٹ بال کھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اگنائٹ: تحقیقی فنڈ مہیا کرنے والا سرکاری ادارہ

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں ایک ڈسپنسری بنانے کے لیے فنڈز کی دست یابی جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے وہاں کچھ حکومتی ادارے ایسے بھی ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تحقیق کے فنڈز کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان اداروں میں سرفہرست نام ’اگنائٹ‘ کا ہے۔ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے ایک ادارے نیشنل آئی سی ٹی آر اینڈ ڈی فنڈ (انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز، ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ فنڈ) کے قیام کی منظوری دی۔

اس ادارے کے قیام کا مقصد پاکستان میں انفارمیشن اور مواصلاتی ٹیکنالوجی میں تحقیق کو فروغ دینا اور اس کے لیے جامعات اور اداروں کی سطح پر قابل اور اہل افراد کو تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کا نام روشن کرسکیں۔ وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مواصلات کے تحت اس ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ حکومت نے ٹیلی کام انڈسٹری کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ اپنے منافع کا ایک مخصوص حصہ ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی تحقیق کے لیے مختص کرے۔

اس ادارے کو فنڈز کی فراہمی وفاقی حکومت کی جانب سے کی جاتی ہے جو پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی لائسنس یافتہ فکسڈ لائن آپریٹرز، سیلولر آپریٹرز اوور ڈیٹا سروس فراہم کرنے والی ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں کے منافع سے ایک مخصوص رقم اس فنڈ ز کے لیے جمع کرتی ہے۔ بعدازاں اس ادارے کا نام تبدیل کرکے اگنائٹ رکھ دیا گیا، جس کے تحت ملک بھر کی جامعات کے اساتذہ اور طلبا انفارمیشن ٹیکنالوجی، مواصلات، روبوٹکس اور انجینئرنگ کے موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھ کر اگنائٹ کے ایک شعبے SEED (سولی سائی ٹیشن، انگیجمینٹ اینڈ ایویلیو ایشن ڈیپارٹمنٹ) کو بھیجتے ہیں۔ یہ محکمہ تحقیقی مقالوں کی قومی سطح پر جانچ کے بعد متعلقہ فرد کو اس میں موجود خامیوں کے بارے میں بتاتا ہے۔

درستی کے بعد SEED ان تحقیق مقالوں کو انٹرنیشنل ایویلیوایشن کے لیے ایکسٹرنل ایویلیوایٹر کے پاس بھیجتا ہے، وہاں سے منظوری کے بعدکے پاس بھیجا جاتا ہے۔جو چار کروڑ روپے تک کے پراجیکٹ منظور کرنے کی مجاز ہے، اگرپی اے سی اس پروپوزل کو منظور کرلے تو پھر متعلقہ جامعہ یا فرد کو فنڈز جاری کردیے جاتے ہیں۔ اگنائٹ کے تحت کسی پراجیکٹ کے لیے فنڈز دینے کا طریقہ 35  سے90 دن میں مکمل ہوجاتا ہے۔ تاہم چار کروڑ سے زاید کے پراجیکٹ کی فنڈنگ کے لیے پی اے سی کی توثیق کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹرز کی نظرثانی اور منظوری کی ضرورت ہوتی ہے، یہ بورڈ کسی پروپوزل کو منظور یا مسترد کرسکتا ہے۔

فائر فائٹنگ روبوٹ کے کام کرنے کا طریقۂ کار

بنیادی طور پر یہ روبوٹ ایسے ماحول کے لیے تیار کیا گیا ہے، جہاں آگ کی شدت بہت زیادہ ہو، یا وہاں تک فائر فائٹر کی رسائی ممکن نہ ہو۔ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) سے مزین یہ روبوٹ ایسے ماحول میں آزادانہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس روبوٹ کو مکمل طور پر پاکستان میں تیار کیا گیا ہے، تاہم اس میں سونار (الٹرا سونک سینسرز جو فاصلے کی پیمائش کرتے ہیں)، تھرمل امیجنگ سینسرز وغیرہ باہر سے درآمد کیے گئے ہیں۔ اس روبوٹ کو آپ موبائل ایپلی کیشن یا اپنے کمپیوٹر کی مدد سے بھی ایک کلومیٹر فاصلے سے آپریٹ کرسکتے ہیں۔

یہ روبوٹ نہ صر ف فائر فائٹنگ بل کہ زلزلے اور دیگر قدرتی آفات میں بھی امدادی کام بہ آسانی کرسکتا ہے۔ اس میں ایسے سینسر لگے ہیں کہ یہ خود ہی آگ کی نوعیت کا تعین کرکے اس کے حساب سے اپنا کام سرانجام دے سکتا ہے۔ فائر فائٹنگ روبوٹ دوسرے روبوٹ کے ساتھ رابطہ کرنے، ٹو ڈی میپنگ (اطراف کا نقشہ بنانا) کرنے، آگ کی شدت اور نوعیت کی جانچ، تھرمل امیجنگ کے ساتھ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہر حالت میں کام کرنے کی صلاحیت کی بنا پر ان روبوٹس کو آگ بُجھانے اور نگرانی کرنے لیے اور قدرتی آفات میں موثر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فائرفائٹر روبوٹ بنانے والے ڈاکٹربلال قادری کہتے ہیں کہ آزمائشی تجربے میں اس روبوٹ نے بڑی کام یابی سے 12بار کے پریشر سے پانی پھینکا، ہمیں اس کے الٹنے کا خدشہ تھا، کیوں کہ بارہ بار کا پریشر بہت زیادہ ہوتا ہے، آٹھ بار کا پریشر ایک دیوار کو گرانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

پورٹ ایبل اور نقل و حمل میں آسانی کی وجہ سے اس روبوٹ کو تھوڑی سی تبدیلی کے بعد دفاعی مقاصد میں بھی موثر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ابتدائی طور پر ہم نے چھوٹے زومو روبوٹ تیار کیے اور اس پر کام یاب تجربے کے بعد بڑے روبوٹ ڈیویلپ کیے۔ زومو میں ہم نے بہت منہگے آلات لگائے۔ اس میں ہم نے Lidar (لائٹ ڈٰیٹیکشن اینڈ رینجنگ) سینسر استعمال کیے جو پوری ٹودی میپنگ کرتا ہے، اس کے علاوہ الٹرا سونک سینسر لگائے جس نے انہیں بہت زیادہ دھویں میں نقل و حرکت کرنے کا اہل بنایا۔ یہ یو ٹی (الٹراہائی ٹیمپریچر) سینسر کہلاتے ہیں۔

یہ سینسر کنٹرولر کو راستے میں موجود کسی رکاوٹ، بہت زیادہ دھویں یا اندھیرے سے آگاہ کرتے ہیں۔ ہم نے اس روبوٹ کا امیجنگ سسٹم ڈیویلپ کیا جو کہ اس کی ریئل ٹائم تھری ڈی لوکیشن دیتا ہے، اس کے بعد یہ روبوٹ ایک فارمیشن میں حرکت کرتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے پائی بورڈ ڈیویلپ کیا، جو کہ پاکستان میں ابھی تجارتی بنیاد پر دست یاب نہیں ہے، یہ الگورتھم ہم نے خود تیار کیا ۔ یہ پائی بورڈ ریئل ٹائم ویڈیو دکھا تا ہے جس کی بنیاد پر ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ بم کو تلف کرنا ہے یا اٹھانا ہے۔

اس کے علاوہ ہم نئے آنے والے طلبا کو سکھانے کے لیے لکڑی کے روبوٹ تیار کر رہے ہیں، ابتدا میں ہم نے اس کام کے لیے مارکیٹ سے دو لاکھ روپے میں ایک روبوٹ خریدا تھا لیکن وہ بس ایک کھلونا ہی ہے، ہم نے جو ووڈن روبوٹ تیار کیا ہے اس کی لاگت چالیس پینتالیس ہزار سے زاید نہیں ہے۔ یہ بیسک روبوٹ ہے، ہم روبوٹ کا ایک پورا ون ونڈو سلوشن تیار کرنے کے خواہش مند ہیں جو فائر فائٹنگ، بم ڈسپوزل روبوٹس کے ساتھ کواڈ کاپٹر روبوٹ بھی ہو۔ اگر وسائل ہوں تو ہم اسنیک روبوٹس بھی تیار کر سکتے ہیں جو قدرتی آفات خصوصا زلزلے وغیرہ میں تنگ جگہوں میں جا کر کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ایسا علاقہ جہاں اسے ربڑ کے ٹائروں کے ساتھ نہ بھیجا جاسکے تو ان علاقوں کے لیے اس میں پہیوں کی جگہ اس طرح کی چین لگائی جاسکتی ہے جو فوجی ٹینکوں میں لگی ہوتی ہے۔

جی پی ایس (گلوبل پوزیشنگ سسٹم) کی بدولت یہ روبوٹس خودکار طریقے سے نہ صرف اپنی ساری نقل و حمل کا ریکارڈ اپنے کنٹرولر تک بھیجتا ہے بل کہ اپنے طور پر کی گئی ساری کارروائی بھی ریکارڈ کرکے بھیجتا ہے۔ خصوصاً جنگلات میں لگنے والی آگ میں روبوٹ پانی کی دیوار بنا کر پہلے اپنا راستہ بناتا ہے اس کے بعد آگے بڑھتا ہے۔ اگر امدادی کارروائی کے درمیان اس کے پروگرام میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو اس کے وائر لیس ماڈیول کی بدولت کنٹرولر ایک کلو میٹر فاصلے سے بھی اس خرابی کو دور کرسکتا ہے، لیکن اگر خرابی اس کے ہارڈوییئر میں ہو تو پھر اسے فاصلے سے ٹھیک کرنا ممکن نہیں ہے۔

 روبوٹ میزبان

گذشتہ سال دسمبر میں کراچی میں ہونے والی ایک شادی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ نہ تو اس شادی میں نوٹوں کی برسات کی گئی اور نہ ہی دولہا یا دلہن میں سے کوئی مشہور شخصیت تھی۔ دلہا دلہن سے زیادہ مرکز نگاہ ایلشن نامی روبوٹ تھا، جسے این ای ڈی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طالب علم اور اس شادی کے دلہا نبیل نے ایک سال کے عرصے میں تیار کیا تھا۔

اس روبوٹ نے نہ صرف مہمانوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں بلکہ ہر میز پر جا کر مہمانوں کی خیرخیریت دریافت کی اور ان سے کھانے کے ذائقے کے بارے میں بھی دریافت کیا۔ ایلشن نامی اس روبوٹ کے موجد نبیل کا کہنا تھا کہ یہ روبوٹ میں نے اپنی شادی پر والدہ کو تحفے مین دینے کے لیے تیار کیا تھا جو خیرمقدمی کلمات کے ساتھ گھر کے کام کاج کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس روبوٹ کو تیار کرنے میں ان کے تقریباً بیس لاکھ روپے خرچ ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔