مولانا فضل الرحمن، ایک جمہوریت پسند سیاستدان

محمد عمران چوہدری  جمعرات 30 اگست 2018
مولانا پاکستان کے ان چند مخصوص سیاستدانوں میں سے ہیں کہ کامیابی جن کے طویل عرصے تک قدم چومتی رہی۔ فوٹو: انٹرنیٹ

مولانا پاکستان کے ان چند مخصوص سیاستدانوں میں سے ہیں کہ کامیابی جن کے طویل عرصے تک قدم چومتی رہی۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو مولانا فضل الرحمن ان چند سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں جو جمہوریت کے شیدائی ہیں۔ یہ واقعہ ان کے جمہوریت پسند ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں صدر مملکت کے انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا، مولانا فضل الرحمن نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ آپ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کو صدر بنا دیں، کیونکہ ان کی جمہوری خدمات کی بدولت یہ ان کا حق ہے اور اس سے پاکستان کا دنیا میں امیج بھی بہتر ہوگا۔ محترمہ بینطیر بھٹو بھی یہی چاہتی تھیں، مگر پھر وسیع تر ملکی مفاد میں غلام اسحاق خان کو صدر اور بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کو کشمیر کمیٹی کا چئیرمین بنا دیا گیا۔

جمہوریت سے مولانا کے عشق کا اندازہ ان کی ہر جمہوری حکومت میں شمولیت سے لگایا جاسکتا ہے۔ مولانا پاکستان کے ان چند مخصوص سیاستدانوں میں سے ہیں کہ کامیابی جن کے طویل عرصے تک قدم چومتی رہی۔ کرپشن کے الزامات اور سیاستدانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، مگر مولانا کو پورے سیاسی کیریر میں صرف دو بار کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بار وہ مولانا ڈیزل کہلائے، دوسری مرتبہ آپ کو 2005/2004 میں، اور تیسری فرد جرم جو مولانا پر لگ سکتی ہے وہ یہ کہ ایک طویل عرصہ تک کشمیر کمیٹی کا چیرمین ہونے کہ باوجود وہ کشمیر کاز کے حوالے سے کچھ نہ کرسکے۔

پی ٹی آئی ٹائیگرز اور مولانا کے دیگر مخالفین اگر مولانا فضل الرحمن کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تووہ مندرجہ بالا الزامات کو فوکس کریں اور کمپین چلائیں، اور اس قانون سازی کا مطالبہ کریں کہ سیاستدان کا اپنی وزارت کے دوران پرفارمنس نہ دینا قابلِ تعزیز جرم ٹھہرے اور عدالت کے ذریعے اس کو سز اد ی جاسکے۔ مزید یہ کہ جو بھی پاکستان یا افواج پاکستان کے خلاف بولے گا، اس کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کی جائے گی۔ آپ اپنی توانائی مندرجہ بالا نکات پر صرف کریں۔ اس کے علاوہ جو کچھ آج کل میڈیا اور سوشل میڈیا پر دانشور حضرات مولانا کے بارے میں فرما رہے ہیں، اس کے بارے میں عرض کرتا چلوں کہ:

تاج دار مدینہ، راحتِ قلب و سینہ، شافعی محشر، ہادی برحق، مالک حوض کوثر، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ غیبت کیا چیز ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا ’’کسی کے پیٹھ پیچھے ایسی بات کرنا جو اسے ناگوار ہو‘‘ سائل نے پوچھا اگر اس میں واقعتاً وہ بات موجود ہوجو کہی گئی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب ہی تو غیبت ہے، اگر واقعتاً موجود نہ ہو، تب تو بہتان ہے۔‘‘

اس لیے وہ تمام دانشور حضرات جو ملک کے وسیع تر مفاد میں مولانا کی تضحیک میں اپنی توانائی صرف کر رہے ہیں، اپنے اقوال و افعال کو لے کر کسی مستند مفتی سے رجوع کریں، اگر وہ فرمادیں کہ یہ جو آپ کر رہے ہیں یہ غیبت کے زمرے میں نہیں آتا تو اپنے اس کارِخیر کو جاری و ساری رکھیں؛ بصور ت دیگر مولانا کا نقصان کرنے کے چکر میں اپنی آخرت نہ خراب کریں۔ کیونکہ غیبت کی سزائیں اور اس کی تعبیرات انتہائی خوفناک ہیں۔

آپ کی خوش نصیبی ہے کہ آپ کا لیڈر عمران خان ہے جو سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کو بھی نظر میں رکھتا ہے۔ جس کی واضح مثال ڈاکٹر عمران شاہ کے خلاف شوکاز نوٹس اور فاروق بندیال سے ٹکٹ کی واپسی وغیرہ ہے۔ اس لیے آپ دیر نہ کیجیے، اس موقع پر درست سمت میں قدم اٹھائیے۔ اس سے پہلے کہ خان صاحب کا جوش ٹھنڈا پڑ جائےاور وہ اقتدار کی غلام گردشوں میں یہ بھول جائیں کہ لوگ تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عمران چوہدری

محمد عمران چوہدری

بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔