امریکا، اقوام عالم کا بد ترین دشمن

صابر ابو مریم  اتوار 30 ستمبر 2018
دنیا میں شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جس کے لوگوں کے خون سے امریکا نے ہاتھ نہ رنگے ہوں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دنیا میں شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جس کے لوگوں کے خون سے امریکا نے ہاتھ نہ رنگے ہوں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

طویل تاریخ میں ہمیں امریکا کی سیاست اور حکومت کی ایک ایسی بدترین مثال نظر آتی ہے کہ جو زبان سے تو انسانیت اور انسانی حقوق کا واویلا کرتی ہے لیکن عملی طور پر امریکی سیاست و حکومت دنیا کی اقوام کےلیے نہ صرف ایک بدی اور برائی کے طور پر ثابت ہوئی ہے بلکہ اقوام عالم کی بدترین دشمن کے طور پر سامنے آئی ہے۔

امریکی سیاست کا ہمیشہ سے وتیرہ یہی رہا ہے کہ امریکی مفادات کا (یعنی امریکا کے چند ایک سیاستدان جو بذات خود اب صہیونیوں کے زیر اثر ہیں، ان کے مفادات کا) تحفظ یقینی بنانے کےلیے دنیا کے کسی بھی گوشے میں کتنا ہی قتل عام کیوں نہ کرنا ہو، کرتے رہو چاہے نت نئے دہشت گرد گروہ ہی کیوں نہ بنانے پڑیں، چاہے اسرائیل جیسی خونخوار جعلی ریاست کو اربوں ڈالر کا اسلحہ دے کر نہتے مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام ہی کیوں نہ کرنا پڑے، چاہے یمن میں امریکی اسلحے کی کھیپ کی کھیپ سعودی حکمران خاندان کو پہنچا کر یمن کے عوام کا قتل عام اور ان پر زندگی تنگ ہی کیوں نہ کرنا پڑے، چاہے کشمیر میں بھارتی جارحیت کی حمایت اور مظلوم کشمیریوں کے قتل عام پر خاموشی ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔

اسی طرح چاہے عراق و افغانستان میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام، ویت نام میں انسانیت کی دھجیاں اڑانا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانا اور اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک بالخصوص پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے اور کبھی دہشت گرد گروہوں کا قیام عمل میں لا کر ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے 80 ہزار پاکستانیوں کو موت کی نیند سلانا پڑے، چاہے فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دینا پڑے، چاہے لسانیت کو پھیلانا ہی کیوں نہ پڑے۔

شام میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرنا اور اسلحہ پہنچانا، چاہے کسی ملک پر معاشی شکنجہ لگانا پڑے تو لگاؤ، ایران و ترکی جیسے ممالک جو حالیہ دنوں امریکا کی معاشی دہشت گردی کا شکار ہیں، اس طرح کے متعدد دیگر مسائل کو پیدا کرنا پڑے، امریکا یہ سب کرتا آیا ہے۔ اس عنوان سے امریکا کی ایک سو سالہ تاریخ دہشت گردی کے سیاہ ترین ابواب سے تاریک تر ہوچکی ہے۔

حالیہ دور میں ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ امریکی سیاست کا دارومدار صرف اور صرف غاصب صہیونیوں کے تحفظ کی خاطر دنیا کے امن کو داؤ پر لگانے میں ہے۔ وہ غاصب صہیونی کہ جنہوں نے پہلے امریکا و برطانیہ کی مدد سے فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا اور ایک جعلی ریاست اسرائیل کو وجود میں لائے اور پھر فلسطینیوں کا ستر برس سے قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں، لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال چکے ہیں۔ اسی طرح پوری دنیا میں ان صہیونیوں کے مفادات کی خاطر انسانیت کے ساتھ عجب مذاق کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں فلسطین سے کشمیر تک مظلوم انسان اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیے جارہے ہیں اور نہ جانے کب تک مزید قتل عام جاری رہے گا۔

رواں ماہ امریکی شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ دراصل اقوام متحدہ کے کردار پر بھی ایک تفصیلی بحث کی جاسکتی ہے کہ آج تک اقوام متحدہ کا ادارہ دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام کیوں رہا ہے؟ مزید یہ کہ اس ناکامی کے ساتھ ساتھ عالمی دہشت گرد قوتوں اور قاتلوں کو بھی اس ادارے کی سرپرستی، یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ خاموش حمایت کیوں حاصل رہی ہے؟ خیر، یہ ایک طویل بحث ہے جس پر کسی اور وقت تفصیلی گفتگو پیش کی جائے گی۔ اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں دنیا کے متعدد ممالک کے سربراہان اور رہنماؤں سمیت وزرائے خارجہ نے خطاب کیا اور اگر ان سب کے خطابات کا خلاصہ نکال لیا جائے تو افریقہ و یورپ سمیت ایشیا و آسٹریلیا اور لاطینی امریکی ممالک تک، تمام کی تمام اقوام امریکی ظلم و ستم کو براہ راست یا بالواسطہ بیان کرتی رہی ہیں۔

چین کی بات کریں تو چین نے بھی امریکی شیطانی سیاست پر سخت اعتراض کیا۔ افغانستان، عراق اور شام تو پہلے ہی امریکی ناپاک سازشوں کو بھگت رہے ہیں۔ فرانس اور جرمنی نے بھی امریکی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ایران نے بھی امریکا کو دوٹوک الفاظ میں اس کی شیطانی سیاست پر آئینہ دکھایا، ترکی نے بھی کھری کھری سنا دیں۔ اسی طرح لاطینی امریکا کے ایک چھوٹے سے ملک بولیویا نے بھی امریکی سازشوں اور دہشت گردانہ سیاست کو مسترد کیا۔ وینزویلا، شمالی کوریا، روس، پاکستان سمیت متعدد ممالک کے رہنماؤں نے امریکا کی غلط اور دہشت گردانہ پالیسیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

یعنی اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں امریکی سیاست و حکومت کے کارناموں پر جس طرح سے دنیا بھر کی اقوام کے نمائندوں نے اظہار خیال کیا ہے، یہ اس بات کی کھلی دلیل اور ثبوت ہے کہ امریکا اور اس کی سیاست، اقوامِ عالم کی بدترین دشمن ہیں۔ سو سالہ تاریخ میں امریکا کے ہاتھوں پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بے گناہوں کا خون ہے۔

خلاصہ یہ کہ امریکا کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کی پالیسی کے باعث نہ صرف امریکی عوام کی نظروں میں اپنی قدر کھوچکی ہے بلکہ دنیا کی دیگر مہذب قومیں بھی امریکی حکومت کی ایسی پالیسیوں کی، جن کے تحت امریکا ہر دہشت گردی کے اقدام کی کھلم کھلا یا درپردہ معاونت کرتا ہے، سخت مخالف کررہے ہیں۔ مثلاً فلسطین، یمن، لبنان، شام، عراق، افغانستان، لیبیا، پاکستان، کشمیر، برما و دیگر ممالک میں، جہاں جہاں دہشت گردی ہے، سب امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کے مرہون منت ہے۔

حد تو یہ ہے کہ اب امریکی حکومت کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہو چکی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی صدر کی انتھک کوششوں کے باوجود ایران کے خلاف کسی بھی ایک ملک نے ووٹ نہیں دیا اور امریکی صدر کو تنہائی کا سامنا کرنا پڑا جو بجائے خود امریکی سیاست اور حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ دنیا بھر میں امریکی مداخلت کے باعث آج ہر ذی شعور یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ امریکا دنیا کی واحد حکومت ہے جو دنیا بھر کی اقوام کی بدترین دشمن ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔