ڈی پی او تبادلہ کیس؛ وزیراعلیٰ پنجاب، سابق آئی جی پنجاب کی معافی قبول

ویب ڈیسک  پير 8 اکتوبر 2018
جب ہم 62 ون ایف کی انکوائری کرائیں گے تو نیا پاکستان بنے گا، چیف جسٹس فوٹو:فائل

جب ہم 62 ون ایف کی انکوائری کرائیں گے تو نیا پاکستان بنے گا، چیف جسٹس فوٹو:فائل

 اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ کیا یہ ہے نیا پاکستان جو حکومت بنا رہی ہے؟، وزیراعظم عمران خان سے میری ناپسندیدگی کا اظہار کر دیں، کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے۔

سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل تبادلہ کیس کی سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی پنجاب کلیم امام اور مانیکا خاندان کے دوست احسن جمیل گجر کے جوابات پر برہمی کا اظہار کیا جس میں انہوں نے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کردیا تھا۔

عدالت نے تینوں افراد کو معافی نامے جمع کرانے کا حکم دیا جس پر وزیراعلی عثمان بزدار، سابق آئی جی پنجاب کلیم امام اور احسن جمیل گجر نے نہ صرف معافی نامہ جمع کرائے بلکہ انکوائری رپورٹ پر دائر اپنے جوابات بھی واپس لے لیے۔ اس پر سپریم کورٹ نے معافی ناموں کو قبول کرتے ہوئے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ سے متعلق از خود نوٹس نمٹادیا۔

قبل ازیں جب سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے عثمان بزدار کے جواب پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اس معاملے کو ہلکا لے رہے ہیں، وزیراعظم کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ یہی وزیراعلیٰ رہیں گے، اگر یہ وزیراعلیٰ رہیں گے تو عدالت کے فیصلوں کے تابع رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی پی او پاکپتن کیس؛ وزیر اعلیٰ پنجاب نے تحقیقاتی رپورٹ مسترد کردی

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو خیال نہیں عدالت میں آ کر غلطی تسلیم کرے ، معافی مانگے، شرمساری دکھائے، وزیراعلیٰ نے جواب میں بہترین افسر پر ذاتی حملہ کیا، وزیراعلیٰ کون ہوتے ہیں ایسا جواب بھیجنے والے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ وزیراعلی معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں، معاملہ حساس تھا اس لیے وزیراعلی نے ڈی پی او کو بلایا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ اثر و رسوخ کی بنیاد پر کیا گیا، رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے غیر متعلقہ شخص کے سامنے پولیس افسروں کو بلایا، کیا ڈی پی او رضوان گوندل پلید ہو گئے تھے جو اتنی جلدی تبدیل کر دیا؟، کیا وزیر اعلیٰ صادق اور امین ہیں؟ کل کو 62 ون ایف کے کیس میں یہ سوال بھی اٹھیں گے۔ چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے قریبی دوست احسن جمیل گجر کے بارے میں کہا کہ کیا پولیس افسران کے بارے میں احسن جمیل ایسی زبان استعمال کر سکتے ہیں؟ کیا یہ حکومت ہے جو نیا پاکستان بنا رہی ہے؟۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان سے میری ناپسندیدگی کا اظہار کر دیں، کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے ؟، کیا یہ ہے نیا پاکستان؟ آگئے ہیں سارے ملکر نیا پاکستان بنانے، جب ہم 62 ون ایف کی انکوائری کرائیں گے تو نیا پاکستان بنے گا، کرامت کھوکھر کا معاملہ پی ٹی آئی ڈسپلنری کمیٹی کو بھیجا مگر کچھ نہیں ہوا۔

وکیل احسن بھون نے کہا کہ احسن جمیل کی طرف سے غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ احسن جمیل گجر ہے کون، یہ کس کا خاندانی دوست ہے۔ وکیل احسن بھون نے کہا کہ یہ مانیکا خاندان کا دوست ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا خاور مانیکا خود جا کر بات نہیں کر سکتے تھے،  ہم انکوائری کراتے ہیں جو ریکارڈ لانا ہے لے آئیں، ہم قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو قانون کے سامنے جھکنا ہو گا،  ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کی تحریری معافی جمع کروا دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے وزیراعلی اور احسن گجر کو واضح الفاظ میں معافی نامہ جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم انکوائری کروائیں گے اور جرح بھی ہو گی، کیا ہمیں جھوٹ نظر نہیں آتا؟ اس معاملہ کو ایسے نہیں چھوڑوں گا، یہ قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔