سعودی صحافی خاشقجی کو سوچی سمجھی سازش کے تحت قتل کیا گیا، ترک صدر

ویب ڈیسک  منگل 23 اکتوبر 2018
خاشقجی کی لاش کہاں ہے سعودی عرب جواب دے، رجب طیب اردگان فوٹو:ـفائل

خاشقجی کی لاش کہاں ہے سعودی عرب جواب دے، رجب طیب اردگان فوٹو:ـفائل

 انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کو منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا جس میں سعودی عرب سے آنے والی 15 رکنی ٹیم اور قونصل خانے کے 3 اراکین ملوث ہیں۔

ترک صدر طیب اردگان نے پارلیمنٹ سے خطاب میں صحافی کے لرزہ خیز قتل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سعودی صحافی کو باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے سعودی قونصل خانے میں قتل کیا گیا اور لاش کو چھپا دیا گیا ہے۔ قتل کی منصوبہ بندی ستمبر میں کی گئی تھی۔

قتل ریاض سے آنے والے 15 افراد نے کیا 

ترک صدر نے بتایا کہ صحافی 2 اکتوبر کو سعودی قونصل خانے گئے تھے جب کہ یکم اکتوبر کو تین الگ الگ پروازوں سے 15 مشکوک افراد ریاض سے استنبول پہنچے تھے جن کی منزل سعودی قونصل خانہ تھی۔ انہی ہائی پروفائل 15 افراد نے قونصل خانے کے 3 حکام کے ساتھ مل کر صحافی کو قتل کیا۔

قونصل خانے سے سیکیورٹی کیمرے ہٹادیئے گئے 

یکم اکتوبر کی رات کو سعودی قونصل خانے میں نصب سیکیورٹی کیمرے ہٹادیئے گئے تھے جب کہ صحافی کی گمشدگی کی اطلاع کے بعد قونصل خانے کے معائنے میں پس و پیش سے کام لیا گیا اور تین دن تک تفتیشی حکام کو داخل ہونے نہیں دیا گیا۔

سعودی عرب لاش کے بارے میں اطلاع دے 

ترکی کے صدر کا کہنا تھا کہ لاش کے حوالے سے متضاد بیانات آرہے ہیں۔ سعودی عرب لاش کے حوالے سے جواب دے۔ اطلاع ہے کہ خاشقجی کی لاش ٹھکانے لگانے کے لیے ایک مقامی شخص کے حوالے کی گئی تھی۔ سعودیہ اس شخص کی معلومات فراہم کرے۔

لاش کو جنگل میں چھپایا جا سکتا ہے 

طیب اردگان کا کہنا تھا کہ ریاض سے آنے والے 15 افراد نے قریبی جنگل ایلوا کا دورہ بھی کیا تھا اور ہمیں خدشہ ہے کہ انہی لوگوں نے صحافی کی لاش کو مقامی شخص کی مدد سے جنگل میں چھپادیا ہو۔ تحقیقاتی اداروں نے لاش کی تلاش جاری رکھی ہوئی ہے۔

سعودی عرب کو ان سوالوں کے جواب دینا ہوں گے

صدر نے سوال اُٹھایا کہ صحافی کے قتل والے دن اہم سیکیورٹی اور ماہرین پر مشتمل 15 رکنی سعودی ٹیم استنبول کیوں پہنچی؟ ان افراد کو کس کے حکم پر استنبول بھیجا گیا؟ اور قونصل خانے کے معائنے کے لیے اتنے دن کیوں لیے گئے؟

قتل کا اعتراف کرلیا ہے تو قاتلوں کی نشاندہی بھی کی جائے

صدر نے کہا کہ کئی بار کی ٹال مٹول کے بعد سعودی عرب صحافی کے قتل کا اعتراف کرچکا ہے لیکن اب تک ہمارے سوالوں کے جوابات نہیں دیے گئے، سعودی عرب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قتل میں ملوث افراد کو بھی بے نقاب کرے۔

ویانا کنونشن میں قاتلوں کو استثنیٰ حاصل نہیں

ترکی کے صدر کا کہنا تھا کہ ویانا کنونشن کے تحت قونصل خانے کو حاصل استثنیٰ کے باعث تحقیقات میں مشکل پیش آئیں تاہم عالمی قوانین ایسے سنگین جرم کی اجازت نہیں دیتے۔ عالمی قوانین کا احترام کرتے ہوئے اپنے آئین کے تحت تفتیش کی جائے گی۔

صحافی کی لاش ملنے تک تفتیش جاری رکھیں گے 

اردگان نے کہا کہ صحافی کا قتل ترکی کی سرزمین پر ہوا اس لیے تحقیقات بھی ترکی کے آئین کے مطابق ہوں گی۔ لاش ملنے تک تفتیشی عمل جاری رکھیں گے اور قتل کے ذمہ داروں کو قانون کے شکنجے میں لائیں گے۔

شاہ سلمان کی نیت پر شک نہیں لیکن ان کا دعویٰ قابل قبول نہیں 

طیب اردگان نے کہا کہ شاہ سلمان کی نیت پر شک نہیں ہے لیکن صحافی کے قتل کو حادثہ قرار دینے کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہے۔  ترکی کو مکمل حقائق جاننے کا حق حاصل ہے۔

ترکی کے صدر نے کہا کہ جمال خاشقجی کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں اور اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ مجھے ان کے ساتھ مکمل ہمدری ہے اور یقین دلاتا ہوں کہ جو بھی قتل میں ملوث ہے اسے قانون کے دائرے میں لایا جائے گا۔

سعودی صحافی کی گمشدگی سے قتل ہونے تک کا پس منظر

جمال خاشقجی سعودی نژاد صحافی ہیں اور واشنگٹن پوسٹ کے لیے کالم لکھتے ہیں۔ انہیں شاہی خاندان اور سعودی فرماں روا کے سخت ناقد کے طور پر جانا جاتا ہے۔اور اسی وجہ سے انہیں اپنا آبائی وطن چھوڑ کر جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی تھی۔

صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو  ضروری کاغذات کے لیے استنبول کے سعودی قونصل خانے  گئے تھے اور پھرلاپتہ ہوگئے تھے۔ سعودی حکام کا اولین دعویٰ تھا کہ صحافی کچھ دیر بعد واپس چلے گئے تھے لیکن ترکی کے حکام نے سعودی موقف کو رد کردیا تھا۔

ترک حکام کا دعویٰ تھا کہ صحافی کو قونصل خانے میں ہی قتل کرکے لاش قریبی جنگل یا کھیت میں چھپادی گئی ہے۔ لاش کی برآمدگی کے لیے تلاش کا کام بھی شروع کیا گیا تھا تاہم میڈیا کو اپ ڈیٹس نہیں دی گئی تھیں۔

یکم 2اکتوبر کو ہی 10 سے زائد سعودی حکام چارٹرڈ طیارے سے استنبول پہنچے تھے اور ان تمام افراد کے سعودی قونصل میں داخلے اور کام مکمل کرنے کے بعد واپس جانے کی سی سی ٹی وی فوٹیجز موجود ہیں۔

ترک تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ یہی افراد جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں ان میں سے ایک شخص فرانزک لیب کا ماہر ہے جب کہ باقی افراد یا تو انٹیلی جنس کے اہلکار ہیں یا پھر سعودی ولی عہد کے محافظ تھے۔

ترکی کے تفتیش کاروں نے صحافی کی گمشدگی کے بعد سعودی قونصل خانے کے پہلی بار معائنے کے بعد  قتل کے حوالے سے آڈیو اور ویڈیو شواہد بھی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور انہی شواہد کی بناء پر تفتیش کو آگے بڑھایا گیا تھا۔

واضح رہے سعودی عرب کا بھی عالمی دباؤ کے بعد جمال خاشقجی کی استنبول کے سعودی قونصل خانے میں موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صحافی ہاتھا پائی کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔ تاہم لاش کے حوالے سے سعودی حکام نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

صحافی کے قتل پر احتجاج کرتے ہوئے امریکا، برطانیہ، جرمنی سمیت دیگر عالمی قوتوں نے سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔