جمال خاشقجی کے معاملے پر عالمی میڈیا نے رہی سہی اقدار کی دھجیاں اڑا دیں

فرحین شیخ  اتوار 28 اکتوبر 2018
اس پوری کہانی پر اگر سنجیدگی سے غوروخوض کر لیا جائے تو چوتھے ستون کی آخری چیخیں صاف سنائی دیں گی۔ فوٹو: فائل

اس پوری کہانی پر اگر سنجیدگی سے غوروخوض کر لیا جائے تو چوتھے ستون کی آخری چیخیں صاف سنائی دیں گی۔ فوٹو: فائل

دواکتوبر کا دن ایک بار پھر ریاست کے چوتھے ستون کو یہ باور کروا گیا کہ سچ بولنے اور لکھنے والوں کے لیے زمین ہمیشہ ہی تنگ رہے گی۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ترکی میں گم شدگی سے لے کر ممکنہ قتل تک کے سارے واقعات چیخ چیخ کر گویا اعلان کر رہے ہیں کہ ریاست کا یہ چوتھا ستون دنیا کے ہر معاشرے میں ہچکولے کھا رہا ہے۔ اس واقعے کے بعد سعودی حکومت کے آمرانہ رویے پر بحث مزید بڑھ چکی ہے۔

ایک طرف امریکا اور سعودی عرب کی نئی سر پھٹول اور دھمکیوں کا بے دریغ تبادلہ خبروں کاسب سے اہم موضوع بنا ہوا ہے تو دوسری جانب موقع سے فائدہ اٹھا کر امریکی سرکار کے آگے نمبر بڑھانے کی تُرک جدوجہد کی کہانی بھی اب کھل کر سامنے آچکی ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ جمال خاشقجی کے اس پورے واقعے میں ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانک کر ریاست کے چوتھے ستون کی ان کارفرمائیوں پر بھی نظر ڈالی جائے جس میں میڈیا کے اداروں نے تمام صحافتی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آزادی اظہار کا بدترین استعمال کیا ہے، جس سے صحافتی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ تو ہوا ہی ہے، ساتھ جمال خاشقجی کو ہم دردی کے نام پر موت کے گڑھے تک بھی پہنچادیا گیا۔

اس پوری کہانی پر اگر سنجیدگی سے غوروخوض کر لیا جائے تو چوتھے ستون کی آخری چیخیں صاف سنائی دیں گی۔ یہ سچ ہے کہ سعودی حکومت جمال خاشقجی کے مزید سچ سننے کی تاب نہ لا سکی تو وہ قلم کی آبرو اور جان جیسی پیاری چیز بچا کر امریکا لے گئے لیکن افسوس خطرات کے سائے ان کے ہم سفر رہے بالآخر ترکی میں ان کا حساب بے باق کردیا گیا۔ کہا تو یہی جارہا ہے کہ جمال خاشقجی کے سچ، حوصلے اور ہمت سے صحافت کو اب محروم کیا جا چکا ہے۔ ان کی گم شدگی سے ان کے جان سے گزر جانے کی تصدیق ہوجانے تک یہ معاملہ اسرا بنا رہا۔

ایسا نازک وقت جب کسی فرد خصوصاً صحافی کے تحفظ کے حوالے سے ٖبے یقینی کی کیفیت عروج پر ہو، وہ سنگین خطرے کی لپیٹ میں ہو یا مغوی بنا لیا گیا ہو، ذرا سی لغزش اس کی زندگی کی ڈور کاٹ سکتی ہو، ایسے نازک وقت میں میڈیا کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے اور ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی اہمیت کئی سو گنا بڑھ جاتی ہے۔ لیکن افسوس جمال خاشقجی کے معاملے پر دنیا بھر کا میڈیا ان کے ممکنہ قتل کی تصدیق سے پہلے ہی ان سے منسوب وہ تمام بیانات اور تحریریں منظرِعام پر لانے میں بری طرح مصروف رہا جو سعودی تحویل میں جمال خاشقجی کی زندگی کی سانسوں کو مدھم کرنے کے سوا کوئی کردار ادا نہیں کر رہا تھا۔

یہ سچ ہے کہ جمال خاشقجی کا معاملہ آل سعود کے گلے کی ہڈی بنتا جارہا ہے ۔ جلد از جلد ان کو زندہ یا مردہ سامنے لانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا، لیکن جمال خاشقجی کے میڈیا پر چلنے والے بیانات ان کے ممکنہ قاتلوں یا دشمنوں کو مزید اشتعال دلانے اور انہیں درست ثابت کرنے کے سوا کوئی تیسرا کام انجام نہیں دے رہے تھے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ وقت سکے کے دونوں رخ دکھانے کا نہیں بلکہ جمال خاشقجی کے لیے ہم آواز ہونے کا تھا، لیکن خاشقجی سے ہم دردی کے لبادے میں سعودی پالیسیوں پر مشتمل بیانات کی میڈیائی تکرار نے، اگر انھیں مارا نہ بھی گیا ہوتا تو بھی ان کی بازیابی کے امکانات ختم کردیے تھے۔

صحافتی اقدار کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بی بی سی جیسے مایہ ناز صحافتی ادارے نے 8اکتوبر کو جمال خاشقجی کی وہ آف دی ریکارڈ گفتگو نشر کردی جو انہوں نے گم شدہ ہونے سے تین دن قبل لندن میں نیوز آور پروگرام کے اسٹوڈیو میں انٹرویو کے دوران صحافیوں سے کی تھی۔ اس گفتگو میں سعودی حکومت کے حوالے سے بہت سے انکشافات اور کافی سخت تنقید شامل تھی۔ یقیناً کچھ ایسی باتیں تھیں جو جمال خاشقجی یا کوئی بھی ذمہ دار صحافی آن دی ریکارڈ نہیں کہہ اور لکھ سکتا۔ بی بی سی نے اس ویڈیو کو نشر کرتے ہوئے لکھا کہ ہم عموماً آف دی ریکارڈ گفتگو نشر نہیں کرتے لیکن موجودہ حالات میں جمال خاشقجی کی گفتگو نشر کرنے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کے اور ان خیالات اور الفاظ کے اثرات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب جمال خاشقجی کی زندگی موت کے پنجوں میں جکڑی ہوئی نظر آتی تھی، آف دی ریکارڈ گفتگو کا نشر کردینا، صریح بددیانتی نہیں تو اور کیا تھا؟

اسی طرح نیویارک ٹائمز کے سابق رپورٹر اور مایہ ناز کالم نویس تھامس فرائیڈ مین نے جمال خاشقجی سے دیرینہ دوستی کا حق ان کی پشت پر کاری وار کر کے ادا کیا۔ گذشتہ سال ماہِ نومبر میں موصوف نے سعودی حکم ران محمد بن سلمان کا مفصل انٹرویو کیا تھا۔ اس انٹرویو کے لیے شاہی محل میں ان کے لیے پُرتکلف میزبانی کا اہتمام کیا گیا، جس کا نتیجہ عین سعودی حکومت کی منشا کے مطابق نکلا اور فرائیڈ مین اپنے کئی کالموں میں محمد بن سلمان کی پالیسیوں کی حمایت کا راگ الاپتے رہے اور ان کے حق میں رطب اللسان ہوتے ہوئی دیگر کئی تحریریں بھی لکھ ڈالیں۔ اس انٹرویو میں انہوں نے بہت سے نامعلوم ذرایع کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ کڑک سوالات بھی کیے تھے۔

اب جمال خاشقجی کی گم شدگی کے بعد یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس میں سعودی حکومت ہی ملوث ہے انہوں نے آٹھ اکتوبر کو ایک کالم لکھ ڈالا جس میں کہا کہ ان کو اب یہ اعتراف کرلینا چاہیے کہ سعودی عرب کے حکومتی معاملات میں ان کا نامعلوم ذریعہ دراصل جمال خاشقجی ہی تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے سعودی عرب کے حوالے سے جمال کے خیالات بھی مفصل تحریر کر ڈالے۔ کئی صحافتی اداروںنے ایسے وقت میں ان کی اس تحریر پر احتجاج کیا تو موصوف نے یوں وضاحتی بیان دیا کہ قطع نظر اس کے کہ جمال زندہ ہے یا مار دیا گیا یہ سچ ہے کہ میں نے اس کے بارے میں نیک نیتی سے یہ سب لکھا کیوں کہ جمال ایک محب وطن سعودی شہری تھا اس کی ساری تنقید حکومتی معاملات کو بہتر کرنے کے لیے تھی۔ فرائیڈ کے اس نامعقول جواب نے ان کی شخصیت کا بُت لمحوں میں توڑ ڈالا اور وہ ساری ریاضت بھی اکارت کردی جو انہوں نے اب تک کے صحافتی سفر میں اٹھائی تھی۔

تادم تحریر سعودی حکومت نے ’’اتفاقی حادثہ‘‘ قرار دیتے ہوئے جمال خاشقجی کے سعودی سفارت خانے میں مارے جانے کا اعتراف کرلیا ہے، جس کے بعد یہ معاملہ کیا رُخ اختیار کرتا ہے، اس کا تعین حق اور انصاف نہیں ملکوں کے مفادات کریں گے۔ مسئلہ صرف جمال خاشقجی کا نہیں بلکہ ایک ستون کی بقا کا بھی ہے، جو صحافی صرف اپنے ضمیر کے قیدی ہوتے ہیں ان کے لیے جینا ایسا ہی مشکل اور مرنا اسی قدر آسان ہوتا ہے۔ جمال کے کچھ ہم پیشہ، ہم مشرب و ہم راز جانے کیوں موت کی تصدیق سے پہلے ہی موت کا یقین کر بیٹھے۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو اس یقین نے جمال خاشقجی کی واپسی کا سفر مزید کھوٹا کردیا ہوتا۔ ضروری ہے کہ دنیا بھر کا میڈیا اپنا اپنا جائزہ لے کہ اس کی غیرذمے داری اور اپنے قارئین اور ناظرین کو چونکانے اور متوجہ کرنے کی لگن ہوس بن کر سانحات بھی جنم دے سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔