’کرکٹ کمیٹی‘ کے معاملے پر شفافیت کے دعوے نظر انداز

محمد یوسف انجم  ہفتہ 27 اکتوبر 2018
کمیٹی کے 3 ارکان دوسری ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں، فوٹو: فائل

کمیٹی کے 3 ارکان دوسری ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں، فوٹو: فائل

لاہور:  ہر کام میں شفافیت اور میرٹ لانے کے دعوے دار پاکستان کرکٹ بورڈ حکام نے ’کرکٹ کمیٹی‘ کی تشکیل کے دوران کئی اہم معاملات نظر انداز کردیے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی نئی کرکٹ کمیٹی کے  ارکان 55 ہزار فی اجلاس وصول کرکے ملکی کرکٹ کو ٹھیک کرنے کے مشورے دیں گے۔

پی سی بی کے سربراہ احسان مانی اور چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں یہ واضح کیا تھا کہ کرکٹ کمیٹی کے ارکان کی باقاعدہ کوئی تنخواہ نہیں ہوگی تاہم معمولی الاؤنسز ضرور دیئے جائیں گے۔

محسن حسن خان کی سربراہی میں کام کرنے والی اس کمیٹی  کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں، اپنا اجلاس بلاسکتے ہیں۔ اجلاس بلانے کے لیے کمیٹی ممبران کی دستیابی کو سامنے رکھا جائے گا۔ سال میں یہ کمیٹی کم از کم 3 بار سلیکشن کمیٹی کے ساتھ مشاورت کرے گی، جس میں ٹیم کی کارکردگی اور کھلاڑیوں کی پرفارمنس پر تبادلہ خیال ہوگا۔ اسی طرح ٹیم انتظامیہ کے ساتھ سال میں اتنی ہی بار ان کا سیشن ہوا کرے گا۔ اس کمیٹی کے ذمہ کرکٹ کرپشن کی  روک تھام کے اقدامات سمیت وہ تمام شعبہ جات ہیں جن میں بہتری لانے کے لیے یہ اپنا تجربہ اور سفارشات بورڈ کے سربراہ احسان مانی کے ساتھ شیئر کریں گے۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر محسن خان، وسیم اکرم، مصباح الحق اور ویمن ٹیم کی سابق کپتان عروج ممتاز ایک اجلاس میں شرکت کے 50 ہزار خصوصی الاؤنس وصول کرنے کے اہل ہیں۔ پچاس ہزار فی اجلاس  فیس کے ساتھ 5 ہزار روپے ڈیلی الاؤنس، فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام، ہوائی ٹکٹ اور ٹرانسپورٹ بھی ان کی مراعات میں شامل ہیں۔

دوسری جانب پی سی بی  کرکٹ کمیٹی مختلف تضادات کا بھی مجموعہ ہے، اس کمیٹی کے 3 ارکان دوسری ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں، وسیم اکرم پی ایس ایل ٹیم ملتان سلطانز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اسلام آباد یونائٹیڈ کی قیادت مصباح الحق کے پاس ہے جبکہ  عروج ممتاز ویمن ٹیم کی سلیکٹر ہیں۔ ہر کام میں شفافیت اور میرٹ لانے کے دعوے دار کرکٹ بورڈ حکام نے ان تمام چیزوں کو نظر انداز کردیاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔