نواز شریف نے قومی اسمبلی میں کیے گئے خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگ لیا

ویب ڈیسک  بدھ 14 نومبر 2018

 اسلام آباد: نواز شریف نے احتساب عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں قومی اسمبلی میں کیے گئے خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگ لیا۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی سربراہی میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت ہوئی، نواز شریف بیان ریکارڈ کرانے روسٹرم پر آئے تو جج ارشد ملک نے پوچھا کہ کیا آپ نے استغاثہ کے شواہد کو دیکھ، سن اور سمجھ لیا ہے جس پر نواز شریف نے کہا کہ جی میں نے شواہد دیکھ لے ہیں۔

ہل میٹل اور العزیزیہ کا کبھی مالک نہیں رہا

نواز شریف نے اپنے جواب میں کہا کہ ہل میٹل اور العزیزیہ کا کبھی مالک نہیں رہا، العزیزیہ اسٹیل مل میرے والد مرحوم نے قائم کی تھی، میرا کسی حیثیت میں بھی خاندانی کاروبار سے کوئی تعلق نہ تھا، قوم سے خطاب میں کبھی نہیں کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل کی فروخت سے میرا کبھی کوئی تعلق رہا ہے، قومی اسمبلی سے خطاب میں العزیزیہ اسٹیل مل کے قیام سے متعلق میرا بیان ذاتی معلومات پر مشتمل نہیں تھا، میں نے وہ تقریر حسین نواز کی جانب سے حاصل ہونے والی معلومات پر کی۔

العزیزیہ اور ہل میٹل سے میرے اکاوٴنٹ میں آنے والی رقوم ٹیکس ریکارڈ میں ظاہر ہیں

نواز شریف نے جواب میں مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت قومی اسمبلی میں کی گئی تقریرکو استثنیٰ حاصل ہے۔ رقوم کی منتقلی کے حوالے سے نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ حسین نواز کے اکاوٴنٹ سے میرے اکاوٴنٹ میں ڈالرز اور یوروز کی صورت میں رقوم منتقل ہوئیں، اس حوالے سے گواہ کی پیش کی گئی دستاویزات اصل کی نقول ہیں۔ العزیزیہ اور ہل میٹل سے میرے اکاوٴنٹ میں آنے والی رقوم ٹیکس ریکارڈ میں ظاہر ہیں۔

نیب کے طلبی کے نوٹسز آنکھوں میں دھول جھونکنے کے برابر تھے

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہل میٹل سے 59 ملین کی رقم براہ راست میری بیٹی مریم صفدر کے اکاوٴنٹ میں آنے سے متعلق نہیں جانتا، نیب کے طلبی کے نوٹسز آنکھوں میں دھول جھونکنے کے برابر تھے۔

 مارشل لاء کے دوران کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھتا تھا

نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ تین بار ملک کا وزیر اعظم رہا، پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو مارشل لاء لگایا، مارشل لاء کے دوران کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھتا تھا، 12 اکتوبر 1999 سے مئی 2013 تک کسی عوامی عہدے پر نہیں رہا۔

حسین نواز کے جمع کروائے گئے ٹیکس سے متعلق جواب دینے کامجاز نہیں 

نواز شریف نے کہا کہ یہ تفتیشی کی رائے تھی کہ میں شریف خاندان کا سب سے با اثرشخص تھا، میرے والد میاں شریف آخری سانس تک خاندان کے سب سے با اثر شخص تھے۔ انہوں نے کہا ٹیکس ریٹرنز، ویلتھ اسٹیمٹمنٹس اور ویلتھ ٹیکس ریٹرن میں نے ہی جمع کروائے تھے، 2001 سے 2008 تک میں جلا وطن تھا جب کہ حسین نواز کے جمع کروائے گئے ٹیکس سے متعلق جواب دینے کامجاز نہیں تاہم میں نے اپنے اِنکم ٹیکس ریٹرن میں تمام اثاثے اور ذرائع آمدن ظاہر کیے۔

بیان ریکارڈ کرانے کے دوران معاون وکیل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب نشست پر بیٹھ جائیں، ہم جواب تحریر کرا دیتے ہیں جس پر جج ارشد ملک نے کہا کہ اگر جواب یو ایس بی میں ہے تو جمع کرا دیں، جج ارشد ملک نے نواز شریف سے جوابات کی کاپی لے لی اور کہا کہ کوئی بات سمجھ نہ آئی تو میں پوچھ لوں گا۔

نواز شریف نے 45 سوالات کے جواب ریکارڈ کروائے، جج ارشد ملک نے کہا کہ بیان پر نواز شریف کے دستخط لینے ہیں، سپریم کورٹ کو بھی بیان بھجوائیں گے کہ یہاں تک بیان ریکارڈ ہو چکا ہے، جو جواب تسلی بخش نہ ہوئے وہ دوبارہ لکھوانے پڑیں گے۔

اس موقع پر نواز شریف نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ 5 سوالات کے جوابات خواجہ حارث سے مشاورت کے بعد دوں گا لہذا وقت دیا جائے، کچھ سوالات پیچیدہ ہیں، ریکارڈ دیکھنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔