تم لوگ اپنی حدود سے باہر نکل رہے ہو، چیف جسٹس کی ڈی جی نیب کی سرزنش

ویب ڈیسک  منگل 11 دسمبر 2018
لوگوں کے ذاتی جھگڑے میں نیب کا کیا کام ہے؟، چیف جسٹس کے ریمارکس: فوٹو: فائل

لوگوں کے ذاتی جھگڑے میں نیب کا کیا کام ہے؟، چیف جسٹس کے ریمارکس: فوٹو: فائل

کراچی: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈی جی نیب کراچی کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا ہے کہ تم لوگ اپنی حدود سے باہر نکل رہے ہو، لوگوں کو بلا کر ذلیل کرتے ہو۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سینئر وکیل سلمان حامد کو نیب کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹس کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈی جی نیب کراچی نصیر اعوان کی سخت سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ شرم نہیں آتی لوگوں کو تنگ کرتے ہو؟ تم لوگ اپنی حدود سے باہر نکل رہے ہو آج ڈانٹ سن کر نظریں جھک گئیں مگر شرم نہیں آتی۔

ڈی جی نیب نے عدالت کو بیان دیا کہ ایک کیس کے ملزم نے بیان دیا تھا کہ وکیل سلمان حامد نے اجازت کے بغیر کیس دائر کیا، جس پر نیب نے تفتیش کے لئے وکیل سلمان حامد کو نوٹس جاری کیا۔

چیف جسٹس نے ایک بار پھر سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کوئی پیشہ وارانہ کام کرے تو اسے نوٹس جاری کرتے ہو؟ لوگوں کے ذاتی جھگڑے میں تمہارا کیا کام ؟  لوگوں کو بلا کر ذلیل کرتے ہو کیا اللہ نے تمہیں اس کام کے لئے مقرر کیا ہے؟ لوگوں کو بلا کر پگڑیاں اچھالتے ہو کیا تفتیش کا یہی طریقہ ہے؟ افراد کو بلا کر تھانہ دکھاتے ہو اور6 ماہ تک سپریم کورٹ کو بھی پتا نہیں چلتا بندہ کہاں گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈی جی نیب تمہیں پہلے بھی خبردار کیا تھا یہ سب چھوڑ دو، سلمان حامد کو تفتیش کے لیے صرف سوالنامہ بھجوایا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب کو سلمان حامد کو طلب کرنے سے روک دیا۔

قبل ازیں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے باہر وکلاء نے سابق جج اور سینئر وکیل سلمان حامد سے انکوائری پر نیب کے خلاف شدید نعرے بازی کی، وکلاء نے چیف جسٹس سے ملاقات کرنے کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس نے  احتجاجی وکلا کو کورٹ روم نمبر 1 میں بلا لیا۔

وکلا نے چیف جسٹس کو بتایا کہ وکیل سلمان حامد نے اپنے پیشہ وارانہ طریقے سے کیس دائر کیا جس پر نیب نے جسٹس (ر) سلمان حامد کے خلاف سیکشن 19 کے تحت نوٹس جاری کیا، جو سراسر ناانصافی ہے۔ چیف جسٹس نے وکلا سے کہا کہ آپ عدالت میں آئیں، تحمل سے سب کی بات سنی جائے گی، اور نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی نیب کراچی نصیر اعوان اور سینئر وکیل سلمان حامد کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔