جنرل (ر) راحیل شریف کا بیرون ملک ملازمت کا این او سی غیر قانونی قرار

ویب ڈیسک  ہفتہ 15 دسمبر 2018
قانون کے تحت سابق سرکاری ملازم کو صرف وفاقی حکومت این او سی جاری کرسکتی ہے (فوٹو: فائل)

قانون کے تحت سابق سرکاری ملازم کو صرف وفاقی حکومت این او سی جاری کرسکتی ہے (فوٹو: فائل)

 لاہور: سپریم کورٹ نے سعودی عرب میں اسلامی عسکری اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کا بیرون ملک ملازمت کا این او سی غیر قانونی قرار دے دیا۔

ہفتہ کے روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سرکاری ملازمین کی دہری شہریت سے متعلق از خود نوٹس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور بعد ازاں تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

سپریم کورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو دہری شہریت رکھنے والے ملازمین کے خلاف کارروائی اور پارلیمنٹ کو غیر پاکستانیوں کو عہدے دینے پر مکمل پابندی سے متعلق واضح فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق راحیل شریف کا این او سی قانون کے مطابق نہیں ہے، سابق آرمی چیف کو بیرون ملک ملازمت کے لیے جی ایچ کیو اور وزرات دفاع نے این او سی جاری کیا جب کہ قانون کے تحت سابق سرکاری ملازم کو صرف وفاقی حکومت این او سی جاری کرسکتی ہے اسی لیے این او سی کے بغیر کوئی سابق سرکاری ملازم کسی غیر ملکی حکومت یا ایجنسی کی ملازمت نہیں کرسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: وفاق و صوبائی حکومتوں کو دہری شہریت والے ملازمین کے خلاف کارروائی کا حکم

فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ غیرملکی شہریت کے حامل سرکاری ملازمین ریاست پاکستان کے مفاد کے لیے خطرہ ہیں، دوران ملازمت غیرملکی شہریت لینا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ملازمین کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے، متعلقہ حکومتیں دہری شہریت والے ملازمین کی فہرستیں مرتب کرکے ان کے نام منفی فہرست میں ڈالیں، ایسے ملازمین کو ڈیڈلائن دیں اور ان کے خلاف کارروائی کریں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت سے مراد وفاقی کابینہ ہے، اٹارنی جنرل نے اس معاملے کا جائزہ لینے کے لیے عدالت سے مہلت طلب کی تھی اور عدالت سیکریٹری دفاع کو حکومت سے این او سی کے لیے ایک ماہ کی مہلت دیتے ہیں، اگر مقررہ مدت کے اندر قانون کے مطابق این او سی جاری نہیں کیا جاتا تو جنرل (ر) راحیل شریف بیرون ملک ملازمت سے سبک دوش تصور کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس نے 17 جنوری 2018ء کو سرکاری ملازمین کی دہری شہریت کے معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا اور دُہری شہریت رکھنے والے سرکاری ملازمین، ضلعی اور اعلیٰ عدلیہ میں تعینات ججوں کی تفصیلات طلب کی تھیں۔ سپریم کورٹ نے دلائل مکمل ہونے پر 24 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔