- پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین چوتھا ٹی ٹوئنٹی آج کھیلا جائے گا
- سائفر کیس؛ مقدمہ درج ہوا تو سائفر دیگر لوگوں نے بھی واپس نہیں کیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ
- ضلع خیبرمیں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں تین دہشت گرد ہلاک، دو ٹھکانے تباہ
- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
آزادی
جو چاہیں وہ بولنے، کرنے، سمجھنے اور سننے کے حق کو آج کل ’’آزادی‘‘ کہا جاتا ہے، جس کا ڈھنڈورا ایک لازمی انسانی حق کے طور پر ایک صدی سے پیٹا جارہا ہے۔ اس آزادی سے کس کی ’’آزاری‘‘ ہو، کوئی فکر نہیں۔ جو چاہو سو کرو، جو چاہو وہ بولو، وہ لکھو، وہ سنو، اس پر عمل کرو۔ یہ آپ کا حق ہے جو آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ جیسے چاہو رہو، جو چاہو پہنو یا نہ پہنو۔ اپنی دنیا، اپنا دین، اپنا معاشرہ جیسے چاہو ترتیب دو۔ آپ مالک ہو۔
مختصراً یہ کہ نفس کی بلا شرکتِ غیرے غلامی کو آزادی کہتے ہیں۔
انسانیت کے نام پر آزادی کا یہ بُت، ایمان سے آگے نکل جاتا ہے۔ بندہ جب کلمہ پڑھ لے تو بھلا آزاد کہاں رہتا ہے؟ نہ سب کچھ بولنے کی آزادی، نہ کرنے کی، نہ سننے کی، کوئی نہ کوئی ضابطہ اخلاق اور قانون تو ہوتا ہی ہے۔
آپ کے گھر میں، شہر میں، ملک، کمپنی، بزنس میں آپ کو سینکڑوں قوانین مل جائیں گے جنہیں آپ بنا چوں وچرا تسلیم کر لیتے ہیں۔ مگر جب بات آتی ہے اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کی، اپنے دین کی، اپنی شخصیت کی تعمیر کی، تو ہمیں ہر قسم کی آزادی چاہیے۔
ہر وہ آزادی جو آپ کو خدا سے دور لے جائے، بندگی کا شرف چھین لے اور انسانوں اور جانوروں میں فرق باقی نہ رکھے، بھلا کس کام کی؟
قیدیوں کو زنجیریں پہنائی جاتی ہیں کہ انہیں اپنی قید کا دھیان رہے، اور باقی لوگوں کو بھی تنبیہ رہے کہ وہ پابند ہیں۔
امریکہ میں Visual reminder وژول ریمائنڈر کی تکنیک سیکھی تھی۔ مثلًا اگر آپ گاڑی کے ڈیش بورڈ پر کچھوا رکھ دیں گے تو وہ آپ کو آہستہ چلنے کا لاشعوری پیغام دیتا رہے گا اور آپ اوور اِسپیڈنگ نہیں کریں گے۔
پہلے زمانے میں جانوروں کے گلے میں جوتا ڈال دیا جاتا تھا یا رنگ لگا دیتے تھے کہ معلوم ہو کہ یہ صدقے کے ہیں۔ آپ بھی کوئی وژول ریمائنڈر ڈھونڈ لیں جو آپ کو صرف اتنا یاد دلاتا رہے کہ آپ مسلمان ہیں اور کافروں کی طرح مادر پدر آزاد نہیں۔ جیب میں تسبیح رکھ لیں، موبائل میں کوئی اسلامی ٹون لگا لیں، گاڑی میں قرآن رکھ لیں، آفس میں جانماز رکھ لیں۔ بیڈ روم میں کسی آیت کو لکھ کر لگا لیں، قبر کی تصویر لگا لیں کہ یاد دِہانی ہوتی رہے۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ جس شخص کو دیکھ کر خُدا نہ یاد آئے وہ اس قابل ہی نہیں ہوتا کہ اسے فالو کیا جائے۔ خواہش ہی رہی کہ فیس بک پر ٹاپ ٹین پاکستانیوں کی لسٹ بناؤں جنہیں فالو کیا جائے، مگر آج تک 10 لوگ ایسے ملے ہی نہیں۔ جو اس قابل ہیں کہ انہیں فالو کیا جائے وہ فیس بک پر نہیں، اور جو میرے جیسے نالائق فیس بک پر ہیں وہ اس قابل نہیں کہ انہیں فالو کیا جائے۔
شخصی آزادی کے نقصانات اس کے فوائد سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ جہاں قرآن و سنت نے آزادی دی ہے وہ آزادی ہے۔ جہاں روک دیا وہاں رک جائیں۔
کوئی رنگ، کوئی جوتا، کوئی نشانی تو ایسی چھوڑیں ناں کے دیکھنے والے کو پتا لگے کہ آپ مسلمان ہیں اور الله کی راہ پر ہیں؛ باقی خرافات کے لیے دستیاب نہیں۔
اللہ ہمیں اپنے ذکر کی آزادی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔