اب صرف معطلی نہیں چاہیے!

ایاز اسلم  پير 21 جنوری 2019
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا قانون کے رکھوالوں کےلیے کوئی قانون نہیں؟ (فوٹو: فائل)

میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا قانون کے رکھوالوں کےلیے کوئی قانون نہیں؟ (فوٹو: فائل)

کراچی میں پولیس کے ایک اعلی عہدے پر تعینات افسر اور اینکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے نام سے مشہور راؤ انوار نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے خوبرو نوجوان نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا، پولیس نے روایتی بیان جاری کیا کہ نقیب اللہ محسود دہشت گرد تھا اور ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ لیکن جب میڈیا نے اس معاملے کو اٹھایا، بات اقتدار کے ایوانوں تک پہنچی، تحقیق ہوئی تو پتا چلا کہ نقیب اللہ بے گناہ تھا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ راؤ انوار اس سے پہلے بھی درجنوں لوگوں کو ایسے ہی جعلی مقابلوں میں قتل کرچکا ہے۔ لیکن ہوا کیا؟ راؤ انوار صرف معطل ہوا۔

کراچی میں ہی گزشتہ برس شاہراہ فیصل پر رکشے میں سوار ایک مسافر (مقصود) کو ڈاکو قرار دے کر، فٹ پاتھ پر بٹھا کر سر عام گولی مار دی گئی۔ پولیس نے بیان دیا کہ مقصود کو اس کے ساتھی گولی مار کر فرار ہوگئے لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج نے سارا پول کھول دیا۔ مگر متعلقہ لوگوں کو سزا کیا ملی؟ صرف معطلی۔

پاکستان کی تاریخ پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی ایسی کارروائیوں سے بھری پڑی ہے جن میں پولیس اہلکاروں اور افسران کی جانب سے معصوم شہریوں کو سرعام قتل کردیا گیا۔ لیکن ہوا کیا؟ اگر تو معاملہ سامنے آ بھی گیا تو تحقیقاتی کمیٹیاں بنیں اور اہلکار معطل؛ ورنہ معاملے پر یوں گرد جمی کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ کیا آج تک کسی بھی اہلکار کو تختہ دار پر لٹکایا گیا؟ نہیں۔

اب آئیے ساہیوال واقعے پر۔ ہنستا بستا گھرانہ لاہور سے شادی میں شرکت کےلیے چلا۔ چار معصوم بچے، ماں باپ اور ڈرائیور اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں کہ کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کی گاڑی نے پہلے ان کی گاڑی کو ٹکر ماری، گاڑی روڈ ڈیوائڈر سے ٹکرائی، رکی، پولیس اہلکار نیچے اترے، تین چھوٹے بچوں کو گاڑی سے نکالا اور ان کے سامنے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ماں، باپ، تیرہ سالہ بیٹی اور ڈرائیور اپنے خالق حقیقی سے ملے۔ یہ معاملہ بھی شاید دب جاتا لیکن جیسے ہی میڈیا پر آیا تو پہلے سی ٹی ڈی نے بیان دیا کہ ہلاک ہونے والے اغواء کار تھے اور بعد ازاں انہیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ لیکن معصوم بچوں کی ویڈیو نے سب کے دل دہلا دیئے۔ حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچی اور ایک بار پھر اہلکار معطل۔

میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا قانون کے رکھوالوں کےلیے کوئی قانون نہیں؟ کیا پاکستان کا قانون انہیں اس بات کی کھلی اجازت دیتا ہے کہ جب چاہو، جسے چاہو مار دو؛ سزا تو صرف معطلی ہی ہے! اگر آج راؤ انوار، سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اس جیسے واقعات میں ملوث قانون کے رکھوالوں کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا تو ہمیں یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔

ریاست مدینہ ثانی کی دعویدار حکومت کےلیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اس کیس کو ٹیسٹ کیس بنا کر اس میں ملوث اہلکاروں کو تختہ دار پر لٹکائے تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی جرأت نہ کرسکے۔ لیکن اگر آپ نے بھی ماضی کے حکمرانوں کی تاریخ دہرائی تو پھر ہماری قسمت پر تو رونا ہی باقی رہ جاتا کیونکہ پاکستانی قوم اگر دہشت گردوں سے بچ جائے تو اسے قانون کے رکھوالے مار دیتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایاز اسلم

ایاز اسلم

بلاگر کیپٹل ٹی وی سے بطور نیوز اینکر وابستہ ہیں جبکہ ریڈیو پاکستان کیلئے بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 2007 سے شعبہ صحافت میں ہیں اور مختلف ریڈیو اور ٹی وی چینلوں سے سفر طے کرتے ہوئے، پچھلے دو سال سے کیپٹل ٹی وی سے منسلک ہیں۔ علاوہ ازیں مختلف ویب سائٹس کےلیے بھی بطور فری لانسر بلاگنگ کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔