زخمی کا نجی اسپتال میں علاج ممکن نہیں، ڈاکٹر عاصم

طفیل احمد  پير 28 جنوری 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

 کراچی:  سندھ ہائرایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین اور سابق وفاقی مشیر ڈاکٹر عاصم حسین نے بتایا کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں نے عوام کو طبی سہولتوں سے محروم کررکھا ہے۔

ایکسپریس سے بات چیت میں سندھ ہائرایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین اور سابق وفاقی مشیر ڈاکٹر عاصم حسین نے بتایا کہ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرزاور طبی عملے کی شدید قلت کی وجہ سے مریض حصول علاج سے محروم ہیں۔ عوام کے ساتھ سنگین مذاق اس طرح کیا جاتا ہے کہ حکومت کے پاس اپنے ہی فیصلوں پر عمل کیلیے بجٹ میں رقم بھی مختص نہیں کی جاتی اورصوبے کے عوام کو میں امل بل منظورکیے جانے کی خوشخبری دی جاتی ہے، امل بل کے تحت مختلف حادثات وواقعات میں زخمی کسی بھی نجی اسپتال جاکرابتدائی طبی امداد حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس بل میں قانونی پیچیدگیاں موجود ہیں جو عوام کو نہیں بتائی گئیں، ملک بھر میں ڈاکٹروںکی شدید قلت ہے۔

20 کروڑ آبادی والے ملک میں صرف ایک لاکھ 72 ہزار ڈاکٹررجسٹرڈ ہیں ان میں سے 30 فیصد رٹائرڈ اور بیرون ملک میں کام کررہے ہیں۔  پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے ڈاکٹروںکی شدیدقلت ہے، میڈیکل یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبا کے مقابلے میں طالبات کے زیادہ داخلے ہوتے ہیںکیونکہ اوپن میرٹ میں طالبات سب سے زیادہ سیٹیں لیتی ہیں۔

میڈیکل وڈینٹل کالجوں میں داخلوں کے وقت 70 فیصد طالبات جبکہ30 فیصد طلبا اوپن میرٹ پر آتے ہیں اس طرح میڈیکل کالجوں میں فی میل ڈاکٹروںکی تعداد طلبا کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے، مختلف وجوہ کی بنا پر30فیصد طالبات میڈیکل ایجوکیشن مکمل کرکے اس پیشے کو چھوڑ دیتی ہے جبکہ10فیصد طالبات میڈیکل کالجوں میں داخلے کے دوران ہی رشتہ ازدواج سے منسلک ہوکر میڈیکل تعلیم کو خیرباد کہہ دیتی ہیں جس سے سرکاری میڈیکل کالجوں میں اوپن میرٹ کی سیٹیں ضائع ہوجاتی ہیں جبکہ سرکاری کالجوں میں ایک ڈاکٹرکی تعلیم وتربیت پر10 لاکھ روپے سے زائدکے اخراجات ہیں اس طرح ہر سال 30سے 40 فیصد طالبات کی سیٹیں ضائع ہورہی ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک میں ڈاکٹروں کی قلت پیداہوگئی ہے۔

ڈاکٹر عاصم نے بتایاکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق600 افراد پر ایک ڈاکٹرمعالج ہونا چاہیے جبکہ ملک میں2ہزار افراد کوایک ڈاکٹرکی سہولت میسر ہے اسی طرح ملک میں ڈینٹل سرجنزکی بھی قلت ہے جبکہ نرسنگ شعبہ بھی پستی کی جانب گامزن ہے، ملک میں صحت کے شعبے کو اہمیت نہیں دی گئی، سرکاری اسپتالوں میں صحت کی سہولتیں بتدریج کم ہورہی ہیں یہی وجہ ہے کہ مریضوں کی اکثریت نجی اسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہے۔

نجی اسپتالوں میں صحت کے حوالے سے جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی جارہی ہے جبکہ علاج کے حصول کو بھی آسان بنادیاگیاہے کسی بھی سرکاری اسپتالوں میں پروسیجر ایکسرے نہیں کیے جاتے لیکن یہ بات درست ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں معالجین نہایت تربیت یافتہ ہیں۔ ڈاکٹرعاصم نے کہاکہ صوبائی حکومت نے حادثات وواقعات میں زخمی افراد کوکسی بھی نجی اسپتال سے ابتدائی طبی امدادکی فراہمی کا امل بل منظورکرلیاہے اورفوری صوبے میں نافذ بھی کردیا تاہم اس بل میں نجی اسپتالوں میں زخمیوں کو فوری طبی امدادکی فراہمی سے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی گئی یہ بل گزشتہ چند روز قبل سندھ اسمبلی سے منظورکیا گیا جو عوام کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے۔

حکومت نے بل تو منظور کرلیا لیکن رواں مالی کے بجٹ 2018-19 میں امل بل کے حوالے بجٹ بک میںکوئی رقم مختص ہی نہیںکی گئی، علاج کی مد میں بھیجے جانے والے مریضوں یا زخمیوںکے بلوں کی ادائیگیوں پر اے جی سندھ اعتراض کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ کونسل نے امسال سرکاری ونجی میڈیکل یونیورسٹیوں اور میڈیکل وڈینٹل کالجوں میں مرکزی داخلہ پالیسی متعارف کرائی جس کا نیتجے میں نجی میڈیکل کالجوں میں 3 ماہ گزرنے کے بعد بھی داخلوں کا عمل مکمل نہیں کیاجاسکا جنوری بھی گزرگیا فروری تک داخلوں کا عمل مکمل ہوگا اس طرح نجی میڈیکل کالجوں میں طبی تعلیم وتربیت3 ماہ پیچھے رہ گئی، نجی میڈیکل کالجوں کو بھی اپنے داخلے کرنے کی اجازت نہیں یہ کس طرح ملک چلائیں گے۔

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے نئے آرڈیننس پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ ہم اسے مسترد کرتے ہیں کیونکہ اس میں نجی میڈیکل کالجوں کے نمائندگان کو شامل ہی نہیں کیاگیا، نجی میڈیکل کالجوںکی جانب سے تربیت یافتہ ڈاکٹر تیار کیے جارہے ہیںجو سرکاری کالجوں کے مقابلے میں زیادہ ڈاکٹر تیار کرتے ہیں لیکن نجی میڈیکل کالجوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔

ایک سوال پر ڈاکٹر عاصم کا کہنا تھاکہ میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس داخلوںکے لیے انٹری ٹیسٹ غیرقانونی ہے، انٹری ٹیسٹ کی قانونی حیثیت نہیں، پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کواپنے داخلے کرنے کی اجازت دی جائے، صوبے کے سرکاری ونجی اسپتالوں کو چلانے کیلیے خود مختار ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے محکمہ صحت کوئی کام نہیں کررہا، اسپتالوں کو محکمہ صحت کے کنٹرول سے علیحدہ کرکے ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت کیاجائے۔

سرکاری اسپتالوں میں صحت کی سہولتیں بتدریج کم ہو کر 35 سے 40 فیصد رہ گئی ہیں جبکہ نجی شعبے میں 60سے70فیصد جدید علاج کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں، سرکاری اسپتالوں میں ہیلتھ انفارمیشن سسٹم کو فعال بنایا جائے، جناح اسپتال ، امراض قلب اور این آئی سی ایچ اسپتالوںکو وفاق کے ماتحت کیے جانے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے ، انھوں نے سندھ ہیلتھ بل کوغیر فعال قراردیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔