این آر او کے ڈرامے کب تک؟

محمد سعید آرائیں  بدھ 20 فروری 2019

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’این آر او کے متعلق کیا کہہ سکتا ہوں این آر او کیا ہے، نہ کریں گے۔‘‘ نواز شریف کے برعکس وزیر اعظم اور ان کے متعدد وزراء مسلسل کہتے آرہے ہیں کہ نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری ڈیل کرنا چاہتے ہیں مگر حکومت کسی سے ڈیل نہیں کرے گی اور کرپشن کرنے والوں کو کرپشن کی رقم واپس کرنے کے ساتھ سزا بھی بھگتنا پڑے گی۔

شہباز شریف کا منسٹر کالونی میں رہنا اور چیئرمین پی اے سی بننا حکومت کے دو وزیروں شیخ رشید اور فواد چوہدری سے برداشت نہیں ہو رہا مگر دونوں عمران خان کے اس مجبوری میں کیے گئے فیصلے پر معترض بھی ہیں مگر دونوں میں اس اختلاف کے باعث حکومت چھوڑنے کی ہمت بھی نہیں ہے۔

فواد چوہدری تو اپنی حکومت میں اس دہرے معیار پر تنقید بھی کر جاتے ہیں جب کہ شیخ رشید کا بس نہیں چل رہا مگر ان کی شریفوں اور زرداری پر تنقید روزانہ ہی ہو رہی ہے اور شیخ رشید کے باعث اب ملکی سیاست میں اب وہ قابل اعتراض بیانات بھی آ رہے ہیں جو اس سے قبل کبھی نہیں دیے گئے جن سے کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ حکومت کا نصف سال مکمل ہو رہا ہے مگر این آر او کے ڈرامے مسلسل جاری ہیں۔

اپوزیشن مسلسل پوچھ رہی ہے کہ حکومت کھل کر بتائے کہ کون این آر او لینا چاہتا ہے تا کہ عوام کو اس کا پتہ چل سکے مگر وزراء اس سلسلے میں نام نہیں بتا رہے اور این آر او کی باتیں وہ ڈرامہ بن گئی ہیں جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا ۔ نواز شریف کی علالت کے باعث اسپتال منتقلی اور شہباز شریف کے بطور اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی میں آئے اور میڈیا سے گفتگو اور آصف زرداری کی عدلیہ سے ضمانت میں مسلسل توسیع اورگرفتار نہ ہونے سے اب این آر او ڈیل کے بعد ڈھیل کی باتیں بھی روزانہ میڈیا میں آ رہی ہیں جس پر بعض وزیر معترض ہیں اور ڈیل کے خواہشمندوں کا کوئی ثبوت دے رہے ہیں اور نہ مذکورہ رہنماؤں کو ڈھیل دلانے والوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

وفاقی وزیر فیصل واواڈا سے منسٹر کالونی میں جو گھر خالی کرا کر شہباز شریف کو دیا گیا وہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے اس پر بھی بے چین ہیں اور اب کہہ رہے ہیں کہ شریف برادران ڈیل کے لیے رقم دینے کو تیار تو ہیں مگر مطلوبہ رقم دینے پر تیار نہیں ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے وزیروں کو پتہ ہے کہ حکومت سزا یافتہ نواز شریف اور اسیر شہباز شریف یا کسی کو بھی این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

عمران خان کمزور وزیر اعظم ہیں جنرل پرویز جیسے با اختیار اور مضبوط حکمران نہیں ہیں جنھوں نے اپنے سیاسی مفاد یا غیر ملکی مداخلت پر نواز شریف کو سرکاری طور جلاوطن کیا تھا اور این آر او کے ذریعے بے نظیر بھٹو سے یو اے ای جا کر ملے تھے مگر بعد میں ان کی مرضی کے خلاف محترمہ واپس آئیں اور ایک بار ایئرپورٹ سے واپس بھیجے جانے والے نواز شریف کا وطن آنا مجبوری میں گوارا کیا گیا تھا۔

رقم واپس لے کر ملزم سے بارگیننگ کا اختیار نیب کے پاس ہے حکومت کے پاس نہیں۔ نواز شریف اب ملزم سے اب سزا یافتہ ہو چکے ہیں اور عدالت سے سزا یافتہ اب نیب کی بارگیننگ سے باہر ہو چکا ہے۔ نیب اب نواز شریف سے رقم کے لیے بارگیننگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے وہ ملزموں کو عدالتوں کے سپرد کرنے سے قبل بارگیننگ کر سکتی ہے اب نہیں اور ویسے بھی بقول نواز شریف ان پر نیب کرپشن کا ایک الزام بھی ثابت کر سکی ہے نہ ان سے کوئی رقم برآمد یا کرپشن کا ثبوت عدالت میں دے سکی ہے اور انھیں سزا اقامے پر اور اپنی جائیداد کے حصول کا ثبوت نہ دینے پر ہوئی ہے۔

حکومت جانتی ہے کہ وہ اب شریفوں اور زرداری کے ساتھ این آر او کر ہی نہیں سکتی تو این آر او کے ڈرامے مسلسل جاری رکھ کر عوام کو کنفیوژ ضرورکیا جا رہا ہے کہ وہ این آر او چاہتے ہیں مگر حکومت نہیں دے گی کیونکہ این آر او عمران خان کے ماضی کے بیانات کی نفی ہیں اور اگر وہ مزید یو ٹرن بھی لیں تب بھی وہ کسی کو این آر او نہیں دے سکتے۔

قید نواز شریف کو طبی ریلیف تو حکومت دینا ہی نہیں چاہتی تھی اور وزیر اعظم کے بس میں ہوتا تو وہ شریفوں پر قید اور اسیری مشکل کر دیتے مگر ان کا بس نہیں چلا اور وزیر اعظم کو انھیں وہ ڈھیل دینا پڑی جو ان کے وزیروں کو پسند نہیں آ رہی مگر پھر بھی وہ این آر او، این آر او کا راگ مسلسل الاپ رہے ہیں۔ اہلیہ کی وفات، حکومت گنوانے، دلائی گئی انتخابی شکست اور سزا کے بعد نواز شریف اب کیوں این آر او لینے کے لیے، اپنے دشمن سے کیوں ڈیل کریں گے۔ وہ وزیر اعظم تو نااہلی کے باعث بن نہیں سکتے۔

انتخابات میں ساڑھے چار سال باقی ہیں جیل میں انھیں کہیں سے دلائی جانے والی ڈھیل کے باعث کسی حقیقی مشکلات کا سامنا نہیں تو (ن) لیگی رہنماؤں کے بقول انھیں کسی ڈیل کی ضرورت ہی نہیں تو حکومت کی طرف سے این آر او کے ڈراموں پر عوام خود حیران ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔