محبت کے دروازے 

عبدالقادر حسن  بدھ 20 فروری 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اخوت محبت کے جو تعلقات شروع دن سے چلے آرہے ہیں، ان کی انتہائوں کا بیان بہت ہی مشکل ہے۔ جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کی اس مقدس سر زمین کے ساتھ جو عقیدت تھی وہ قیام پاکستان کے بعد سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں سمٹ آئی۔

پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر کو ہم نے کبھی کسی غیر ملک کا نمایندہ نہیں سمجھا اور سعودی عرب نے اپنے ہاں پاکستانی سفیر کو ہمیشہ اپنا رازداں سمجھا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان پیارو محبت اور ذہنی یگانگت کی مثالیں ہم بار بار دیکھتے رہتے ہیں جب بھی پاکستان کا کوئی لیڈر سعودی عرب جاتا ہے اور یہ اکثر ہوتا رہتا ہے تو سعودی حکمران اپنے شاہانہ تکلفات و رسومات کی پرواہ کیے بغیر پاکستانی لیڈروں کا بے ساختہ استقبال کرتے ہیں۔

کچھ ایسی ہی صورتحال پاکستان میں بھی بن جاتی ہے جب بھی سعودی عرب کے بادشاہ یا ان کے شاہی خاندان کا کوئی فرد پاکستان تشریف لاتا ہے تو پاکستانی اپنی آنکھیں اور دل ان کی راہ میں نچھاور کر دیتے ہیں ۔ گزشتہ روز جب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان دو روزہ دورے پرپاکستان تشریف لائے تو حکومت پاکستا ن نے تما م رسمی پروٹوکول بھلا کر ان کا اوران کے ساتھ تشریف لانے والے معزز مہمانوں کا بھر پور استقبال کیا۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ایئر پورٹ سے شہزادہ محمد بن سلمان کی گاڑی خود ڈرائیو کر کے ان کو وزیر اعظم ہائوس لائے۔ یہ کسی ایک فرد کا استقبال نہیں تھا بلکہ سعودی عرب کا استقبال تھا جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر سیکیورٹی کی صورتحال کا اندیشہ نہ ہوتا تو پاکستانی قوم ایئر پورٹ سے وزیر اعظم ہائوس تک سڑک کے دونوں جانب شہزادہ محمد بن سلمان کے استقبال کے لیے موجود ہوتی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اتنے کھلے واضح اور ظاہر ہیں کہ دونوں ملکوں کے نام ہی ان تعلقات کے بیان کے لیے کافی ہیں۔

دنیا جانتی ہے اور پاکستان کے دشمن جانتے ہیں سعودیوں کی پاکستان کے ساتھ محبت کیا ہے ،کتنی ہے اور ان پاکستان دشمنوں کے لیے کس قدر اذیت ناک ہے۔ خود شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ کہنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خود سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان کا تازہ استقبال یہ بتاتا ہے کہ مہر و وفا کا یہ سلسلہ قائم ہے اور اس کی گرمجوشی میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ وقت کے ساتھ مزید مستحکم اور گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔

ہم سطحی نظر رکھنے والے پاکستانی کبھی کبھار پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوستانہ تعلقات کو خراب گردانتے ہیں اور اس کی کئی تاویلیں بھی بیان کرتے ہیں لیکن سعودی حکمران پاکستان کو ہمیشہ محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہر مشکل وقت میں انھوں نے پاکستان کی بھر پور مدد کی ہے۔ دنیا کے کسی فورم پر پاکستان کو جب کہیں ووٹ کا سوال پیدا ہوا تو سعودی عرب اس کے شانہ بشانہ کھڑا نظر آیا، اس کی وجہ پاکستان کے ساتھ ان کی محبت ہے اور سعودی حکمرانوں کے ہاں پاکستان کے لیے کسی بھی معاملے میں انکار کی گنجائش موجود نہیں ہے۔

بھارت کے ساتھ جنگوں کا معاملہ ہو ا تو دنیا بھر کے مسلمان ممالک کی جانب سے بھارت کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انڈونیشیا کی سب میرین اگر ہمارے سمندر میں تھیں تو دنیا بھر میں موجود سعودی سفیر ہمارے سفیروں سے پوچھتے تھے کہ کہیں سے کوئی اسلحہ خریدا ہے تو اس کا بل ہمیں بھجوا دیں۔ شاہ فیصل کا یہی حکم تھا مسلمانوں کی محبت حاصل کرنے کی ذمے داری ہمیشہ پاکستانی حکمرانوں پر رہی ہے ۔آج کے اس گئے گزرے زمانے میںجب بھی کوئی پاکستانی حکمران سعودیوں کے سامنے جاتا ہے تو وہ سراپا محبت بن جاتے ہیں۔

پاکستان کے نئے حکمران عمران خان نے شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ جو بے ساختہ گفتگو کی ہے، وہ اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستانی اور سعودی حکمرانوں کے درمیان تکلفات کے رشتے نہیں ہیں بلکہ ایک ایسی بھائی چارے کی فضاء ہے جس میں ایک بھائی دوسرے بھائی سے بے تکلفانہ اپنا مسئلہ بیان کرتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا بھائی اس کا یہ مسئلہ حل کر دے گا۔ کچھ ایسی ہی بے ساختہ گفتگو عمران خان نے اپنے ان پاکستان بھائیوں کے بارے میں کی ہے جو معمولی جرائم کی وجہ سے سعودی عرب کی جیلوں میں بند ہیں ۔

یہ پہلا حکمران آیا ہے جو عوام کی بات کر رہا ہے اور عوام اس کی بات سن بھی رہے ہیں اور اس کے لیے دعائیں بھی کر رہے ہیں۔ عمران خان کی جو شخصیت سامنے آرہی ہے وہ اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ ان کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ بول دیتے ہیں گو کہ کئی بار ان کو اس کا نقصان بھی ہوا ہے لیکن ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘ والا معاملہ ہے اور عمران خان کے معاملے اللہ سنوار رہا ہے۔

مسلمان حکمرانوں کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم ہے کہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا تو مجھے یاد ہے کہ پورے عالم اسلام نے کہا کہ یہ ہمارا بم ہے اور پورے عالم اسلام میں بے پایاں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی بلکہ اس وقت میاں نواز شریف سے بعض مسلمان حکمرانوں نے شکایت بھی کی کہ انھوں نے انھیں دھماکے کی مبارکباد کیوں نہیں دی اور اسے صرف پاکستان کا بم کیوں سمجھا۔

پاکستان کے محل وقوع کی وجہ سے غیر ملکی ریشہ دوانیوں اور دوسرے کمزور مسلمان حکمرانوں کی وجہ سے بعض اوقات کسی برادر ملک کے ساتھ تعلقات میں کچھ سرد مہری بھی آئی لیکن یہ ہمیشہ عارضی ثابت ہوئی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہر مسلمان ملک کے عوام پاکستان کے حق میں رہے ہیں اور ہیںانھوں نے پاکستان کے مسلمان عوام کو حکمرانوں کے حوالے سے نہیں دیکھابلکہ ہمیشہ اپنے دینی جذبے کی نگاہ سے دیکھا ہے۔

آج اگر پاکستان اور سعودی عرب کے حکمرانوں کے درمیان پروٹوکول کے تکلفات نہیں ہیں تو اس کی وجہ ایک دوسرے کی محبت ہے۔ سعودی عرب ان چند ممالک میں سے ہے جس کے حکمرانوں کی بھی پاکستان کے ساتھ اتنی ہی محبت ہے جتنی سعودی عوام کی اس لیے عمران خان کے لیے سعودی حکمرانوں کے دلوں کے دروازوں کے ساتھ ساتھ مقدس مقامات کے دروازے بھی نہ کھلیں تو اور کیا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔