بلوچستان میں طویل خشک سالی کا اختتام

صادقہ خان  بدھ 13 مارچ 2019
ملک بھر میں جاری حالیہ بارشیں اور برفباری یہ علامت ہیں کہ اللہ تعالیٰ ابھی اپنے بندوں سے مایوس نہیں ہوا۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

ملک بھر میں جاری حالیہ بارشیں اور برفباری یہ علامت ہیں کہ اللہ تعالیٰ ابھی اپنے بندوں سے مایوس نہیں ہوا۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

کرۂ ارض پر زندگی کی ابتدا کے متعلق اب تک لا تعداد قیاس کیے جا چکے ہیں جن میں سے چند ایک باقاعدہ قوانین کی شکل میں بھی ڈھالے گئے؛ اور سائنسدانوں اور مفکرین کا وسیع حلقہ انہیں مصدقہ تسلیم کرتا ہے۔ مگر ان تمام قوانین میں ایک بات مشترک ہے، اور وہ ہے پانی۔ پانی جہاں کہیں بھی ہو، جس رنگ میں بھی ہو، وہ حیات کا پیامبر ہے۔ چاہے سمندروں کی شوریدہ سر موجیں ہوں یا دریاؤں کا ٹھاٹھیں مارتا مٹیالا گدلا پانی، یا نیلگوں جھیلوں کی صورت میں فسوں بکھیرتا پانی۔ انسان کا پانی سے انمٹ رشتہ کسی نہ کسی صورت میں قائم رہا کیونکہ یہ کرۂ ارض پر نسلِ انسانی کی بقا کےلیے لازم ہے۔

مگر جس طرح انسان کی زندگی میں دھوپ اور چھاؤں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، غم کی طویل رات کے بعد ہمیشہ سکھ اور چین کی کرنیں بکھیرتا سورج طلوع ہوتا ہے، ہر رنجش کے بعد صلاح اور مشکل کے بعد آسانی میسر آتی ہے اسی طرح کرۂ ارض کا پورا نظام باقاعدہ آفاقی قوانین پر چل رہا ہے جنہیں نفسیات میں ’’کرما‘‘ بھی کہا جاتا ہے؛ جن کا لبِ لباب یہ ہے کہ تم جو بو گے، وہی کاٹو گے۔ آج کا انسان ٹیکنالوجی کی انتہاء پر پہنچ کر ہر جانب سے مشکلات میں گھرا، اپنا بویا خود کاٹ رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے کرۂ ارض کے نظام میں توازن بر قرار رکھنے کےلیے سال میں چار موسم بنائے تھے۔ ہر برس بہار اور پھر گرمی کے بعد خزاں ڈیرے ڈالتی ہے تو ہر خزاں کے بعد موسلا دھار بارشوں اور برف باری کے متعدد سلسلوں کے بعد ایک مرتبہ پھر بہار اپنا جوبن دکھلانے آن موجود ہوتی ہے۔ مگر انسان ہمیشہ سے ناشکرا رہا ہے، اسے میسر پر قناعت کرنا کبھی آیا ہی نہیں۔ حضرت آدمؑ کی ایک خطا نسل در نسل اولادِ آدم میں منتقل ہوتی رہی ہے۔ یہ اس کی فطرت ہی تو ہے کہ پہلے وہ غلطی کرکے چیزوں کو بگاڑ کر خود کو مشکل میں ڈالتا ہے اور پھر پوری تن دہی کے ساتھ بگڑے کو سنوارنے میں جت جاتا ہے۔

ایسا ہی کچھ بنی نوعِ انسان نے اپنے سیارے زمین کے ساتھ بھی کیا ہے۔ ماحولیاتی و فضائی آلودگی اور عالمی درجۂ حرارت میں بتدریج اضافے کی وجہ سے جو بگاڑ زمین کے قدرتی نظام میں پیدا ہوا ہے، اس کی بدولت کہیں سمندری و برفانی طوفان تباہی مچا رہے ہیں تو کہیں موسلا دھار بارشیں اور سیلاب بستیوں پر بستیاں اجاڑتے گزر جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب ایشیا، افریقہ، امریکا اور یورپ سمیت ایک وسیع علاقے کو با رشوں کی کمی کے باعث تاریخ کی بدترین خشک سالی کا سامنا ہے۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے عالمی درجۂ حرارت کی وجہ سے متعدد دریا اور جھیلیں جو کبھی دنیا بھر سے سیاحوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ہوا کرتے تھے، اب کسی بنجر تھور زدہ زمین، یا لق و دق صحرا کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

ایسا ہی کچھ حال ہمارے وطن پاکستان کا بھی ہے جہاں گزشتہ دو سال میں بارشوں کی قلت کی وجہ سے پانی کا بحران شدید ترین ہو گیا ہے اور 2018 کے اواخر میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 2025 تک یہاں 31 ملین ایکڑ فٹ پانی کی کمی کا اندیشہ ہے، جو ایک ایسے ملک کےلیے خطرناک ترین حد ہے جس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ اس رپورٹ کے اجراء کے بعد انڈس بیسن اریگیشن سسٹم نے خطرناک صورتحال کو بھانپتے ہوئے ہنگامی اقدامات پر زور دیا تھا کیونکہ اگر موسمِ سرما میں بارشیں نہ ہوئیں تو اگلے ربیع کے سیزن میں فصلوں کی بوائی کےلیے پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑتا۔

مگر اللہ تعالیٰ کا ہمارے وطن پر ہمیشہ سے خصوصی کرم رہا ہے۔ ہماری مرکزی و صوبائی حکومتیں چاہے آنے والی بدترین صورتحال سے کتنی ہی غافل کیوں نہ ہوں لیکن اللہ پاک ہمیں نوازتا رہتا ہے۔ اورایک بار پھر شمالی علاقہ جات، سندھ و پنجاب اور بلوچستان سمیت ملک بھر میں گزشتہ دو ماہ کے دوران موسلا دھار بارشوں نے پانی کی شدید کمی کو کسی حد تک کم ضرور کیا ہے۔

2019 کے آغاز سے نہ صرف شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان میں شدید برف باری ریکارڈ کی گئی ہے بلکہ موسم کے معمولات سے ہٹ کر صوبۂ بلوچستان میں بھی بادل کھل کر برسے اور مارچ کے مہینے میں شدید برف باری ہوئی ہے۔ 28 فروری کو محکمۂ موسمیات کی جانب سے بلوچستان بھر میں شدید ہواؤں کے ساتھ موسلا دھار بارش اور برف باری کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس کے باعث بہت سے علاقوں میں شدید سیلابی صورتحال کا بھی اندیشہ تھا۔ واضح رہے کہ فروری کے اواخر میں موسلا دھار بارشوں کے بعد حب، لسبیلہ اور ملحقہ علاقے پہلے ہی شدید سیلاب کی زد میں ہیں اور میرانی ڈیم میں پانی خطرناک حد سے تجاوز کر چکا ہے۔ 2 فروری کو علی الصبح کوئٹہ، قلات، زیارت، کان مہتر زئی اور ارد گرد کے علاقوں میں شدید برف باری کا آغاز ہوا جو بغیر کسی وقفے کے تین سے چار گھنٹے جاری رہی۔ اب تک دستیاب اعداد و شمار کے مطابق کوئٹہ کینٹ اور اطراف کے پہاڑی علاقوں میں 1 سے 2 فٹ، زیارت میں 3 فٹ، خانوزئی، قلعہ سیف اللہ میں چار فٹ برف باری ریکارڈ کی گئی ہے۔

بہار کے آغاز میں اس شدید برف باری سے کوئٹہ کے شہریوں میں شدید خوشی کی لہر دوڑ گئی جو شہر کی ابتر حالت کے باعث تفریح کو ترس گئے ہیں۔ واضح رہے کہ کوئٹہ شہر میں تفریحی مقامات کی تعداد ویسے ہی بہت کم ہے۔ مقامی افراد یا سیاح زیادہ تر ہنہ جھیل، اوڑک یا عسکری پارک کا رخ کرتے تھے مگر گزشتہ دو سال میں بارشوں کی کمی اور صوبائی حکومت کی غفلت کے باعث کوئٹہ کی پہچان ’’ہنہ جھیل‘‘ مکمل طور پر خشک ہوکر بنجر تھور زدہ زمین کا منظر پیش کر رہی تھی۔ حالیہ بارشوں اور شدید برف باری کے بعد نہ صرف جھیل میں پانی کا لیول بڑھا ہے بلکہ زیرِ زمین پانی کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوگا۔ ہنہ جھیل کی تباہی میں مقامی افراد نے بھی مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

کوئٹہ شہر میں پانی کی قلت کے باعث ٹینکر مافیا اور ارد گرد کے زمین داروں نے اپنی زمینیں سیراب کرنے کےلیے پمپوں کے ذریعے بے دریغ جھیل سے پانی نکالا جس کی وجہ سے گزشتہ دو سال سے یہ مکمل خشک ہو چکی تھی۔ لیکن تین گھنٹے کی برف باری تھمتے ہی بڑی تعداد میں شہریوں نے ہنہ جھیل، اوڑک، ایئرپورٹ روڈ، اور دیگر مقامات کا رخ کیا جس کے باعث ٹریفک کے مسائل کا بھی سامنا رہا مگر منچلے افراد نے دو برس بعد ہونے والی برف باری سے بھرپور لطف اٹھایا۔

صوبائی محکمۂ زراعت کے ایک افسر کے مطابق، موجودہ صورتحال میں بارشوں سے کہیں زیادہ مؤثر برف باری ثابت ہوگی۔ کیونکہ بلوچستان کے پہاڑ پتھریلے اور بنجر ہیں جہاں بارشوں کا پانی ذخیرہ ہونے کے بجائے سیلاب کی صورت میں ضائع ہوجاتا ہے۔ مگر برف آہستہ آہستہ پگھل کر زیر زمین جذب ہو کر پانی کا لیول بڑھاتی ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان کے دیہاتی علاقوں میں زیادہ تر افراد تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے باعث ان پڑھ ہیں جن کا ذریعۂ معاش زراعت اور گلّہ بانی ہے۔ حالیہ بارشوں اور برف باری سے ان افراد میں بھی زندگی کی لہر دوڑ گئی ہے جو مسلسل خشک سالی کے باعث دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی پر مجبور تھے۔

کوئٹہ سے تین گھنٹے کی مسافت پر واقع وادیِ زیارت کسی دور میں ملک بھر سے آنے والے سیا حوں کی خصوصی توجہ کا مرکز تھی اور کوئٹہ آنے والے افراد کے ٹور میں زیارت کی مشہور ’’ریزیڈنسی‘‘ اور صنوبر (جونیپر) کے جنگلات کی سیر ضرور شامل ہوتی تھی۔ مگر گزشتہ چند سال میں بارشوں کی کمی، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، اور مقامی افراد کے اندھا دھند مویشی چرانے کی وجہ سے زیارت اپنی خوبصورتی سے محروم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے پورے بلوچستان کے حیاتی ماحولیاتی نظام (ایکو سسٹم) پر منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں کیونکہ جنگلات کسی بھی علاقے میں ایک مستقل سسٹم بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ 2 فروری کو یہاں بھی 3 سے 4 فٹ برف باری ریکارڈ کی گئی اور اگلے چند روز میں مزید برف باری متوقع ہے۔ مگر کیا زیارت ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی خوبصورتی دوبارہ حاصل کرلے گا؟ اس امر کا دارومدار ہمارے اپنے اعمال پر ہے۔

ملک بھر میں جاری حالیہ بارشوں اور برف باری کا سلسلہ ایک علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ اب بھی اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ وہ ہماری تمام غفلتوں، کوتاہیوں اور لغزشوں کے باوجود ہم پر ابرِ کرم برسا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم انسان اس کی اس عطا کی کتنی قدر کرتے ہیں اور ہماری مقامی و صوبائی حکومتوں نے بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے کتنے مؤثر انتظامات کیے ہوئے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ ایک بار پھر سیلابی صورتحال سے نمٹنے اور موسمِ گرما میں پھر اسی پانی کی کمی کا سامنا کرنے کے بعد ہماری حکومتیں ڈیمز اور پانی کے دیگر ذخائر کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ لیں؛ ورنہ ہمیشہ کی طرح ہم اس موسم میں جو بوئیں گے، اگلے موسم میں ہمیں وہی کاٹنا پڑے گا۔ یہی قدرت کا نظام ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

صادقہ خان

صادقہ خان

مصنفہ کا تعلق کوئٹہ، بلوچستان سے ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے فری لانس سائنس جرنلسٹ اور فزکس کی استاد ہیں۔ ڈان، اے آر وائی، جنگ اور ایکسپریس ٹرایبیون میں سائنسی مضامین لکھنے کے علاوہ سائنس فکشن ناول نگار اور ترجمہ نگار بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔