- پنجاب؛ کسانوں سے گندم سستی خرید کر گوداموں میں ذخیرہ کیے جانے کا انکشاف
- اسموگ تدارک کیس: ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات لاہور، ڈپٹی ڈائریکٹر شیخوپورہ کو فوری تبدیل کرنیکا حکم
- سابق آسٹریلوی کرکٹر امریکی ٹیم کو ہیڈکوچ مقرر
- ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کے صوابدیدی اختیارات سپریم کورٹ میں چیلنج
- راولپنڈٰی میں بیک وقت 6 بچوں کی پیدائش
- سعودی معاون وزیر دفاع کی آرمی چیف سے ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو
- پختونخوا؛ دریاؤں میں سیلابی صورتحال، مقامی لوگوں اور انتظامیہ کو الرٹ جاری
- بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز،21 ریاستوں میں ووٹنگ
- پاکستانی مصنوعات خریدیں، معیشت کو مستحکم بنائیں
- تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں، اسرائیل ایران پر براہ راست حملے کی ہمت نہیں کریگا، ایکسپریس فورم
- اصحابِ صُفّہ
- شجر کاری تحفظ انسانیت کی ضمانت
- پہلا ٹی20؛ بابراعظم، شاہین کی ایک دوسرے سے گلے ملنے کی ویڈیو وائرل
- اسرائیل کا ایران پرفضائی حملہ، اصفہان میں 3 ڈرون تباہ کردئیے گئے
- نظامِ شمسی میں موجود پوشیدہ سیارے کے متعلق مزید شواہد دریافت
- اہم کامیابی کے بعد سائنس دان بلڈ کینسر کے علاج کے لیے پُرامید
- 61 سالہ شخص کا بائیو ہیکنگ سے اپنی عمر 38 سال کرنے کا دعویٰ
- کراچی میں غیرملکیوں کی گاڑی پر خودکش حملہ؛ 2 دہشت گرد ہلاک
- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث دوستی بس میں سفر کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر
لاہور: بھارت کی طرف سے پاکستانی شہریوں کو ویزوں کے اجرا میں کمی اور سخت شرائط کی وجہ سے دوستی بس کے ذریعے سفر کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، جس کی وجہ سے دوستی بس سروس ناکام ہوتی نظرآرہی ہے۔
پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستانی شہریوں کے لئے ویزا پالیسی مزید سخت کردی ہے جس کی وجہ سے بھارت جانے والے پاکستانی شہریوں کو مشکل کا سامنا ہے جب کہ لاہور اور دہلی کے مابین چلنے والی دوستی بس بھی چند ایک مسافر ہی لے کر آتی اور جاتی ہے۔ جمعہ کے روز لاہورسے 8 مسافر بھارت روانہ ہوئے جن میں زیادہ تعداد بھارتی شہریوں کی تھی جبکہ دہلی سے لاہور آنے والے مسافروں کی تعداد 14 بتائی گئی ہے۔
لاہور میں بھارت کے لئے ویزا درخواستیں وصول کرنے والی نجی کورئیر کمپنی میں ایک خاتون بشری ملک نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو جگر کا عارضہ ہے ، ڈاکٹروں نے اس کا علاج بھارت میں تجویزکیا ہے، وہ لوگ دو مرتبہ کوشش کرچکے ہیں لیکن ہر بار بھارتی سفارتخانہ کوئی نہ کوئی جواز بنا کر ویزا درخواست مسترد کردیتا ہے ، آج انہوں نے دوبارہ درخواست جمع کروائی ہے ،اللہ کرے اس بار ویزا مل جائے۔
ایک شخص عبدالرحیم کا کہنا تھا اس کے سسرال بھارت میں ہیں، جہاں ان کے ایک عزیز کی شادی ہے، پلوامہ حملوں سے بھی پہلے ان کے خاندان کے 12 افراد نے ویزا کی درخواست دی تھی، لیکن اب تک صرف مجھے اور اہلیہ کو ویزامل سکا ہے باقی تمام لوگوں کی درخواستیں مسترد کردی گئی ہیں۔
کورئیر سروس کے نمائندے نے بھی اپنا نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صرف لاہور سے جو ویزا درخواستیں جمع کروائی جارہی ہیں ان میں سے 70 فیصد ویزا درخواستیں مسترد ہوجاتی ہیں ، چند ایک درخواستیں کسی تکنیکی وجہ سے مسترد ہوتی ہے تاہم زیادہ تر درخواستیں مسترد کئے جانے کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی جاتیں۔ بھارت کی طرف سے پاکستانی زائرین کو بھی ویزا نہیں دیا جارہا ہے ، اس طرح بزنس ویزا بھی نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم علاج اورانتہائی قریبی رشتہ داروں کو ویزے جاری ہوتے ہیں۔
مسافروں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین چلنے والی دوستی بس سروس ناکام ہوتی نظر آرہی ہے، پاکستان ٹوورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کو خسارے کا سامنا ہے تاہم اس کے باوجود دوستی کے نام پر یہ خسارا برداشت کیا جارہا ہے۔ لاہور سے دہلی تک بس کا کرایہ 4 ہزار جب کہ بچوں کے لئے کرایہ 2500 روپے ہے۔ جب کہ بس کا ڈیزل، ڈرائیور اور ہیلپرکی تنخواہوں سمیت دیگرعملے کا اخراجات لاکھوں روپے ہے۔
دوستی بس ٹرمینل کے حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان سے زیادہ خسارہ بھارت کو برداشت کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہماری بس تو صرف واہگہ بارڈر سے روانہ ہوتی ہے لیکن بھارتی بس کو دہلی سے لاہور تک کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ بھارت کو بس کی سیکیورٹی پر زیادہ اخراجات اٹھانا پڑتے ہیں۔ پی ٹی ڈی سی کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ کئی بار بھارتی ٹرانسپورٹ کمپنی اس سروس کو بند کرنے کا کہہ چکی ہے لیکن پاکستان خسارے کے باوجود دوستی بس کا پہیہ چلائے ہوئے ہے۔
واضح رہے کہ دہلی اور لاہور کے درمیان مذکورہ دوستی بس سروس کا آغاز 1999 میں ہوا تھا اور اس وقت بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی تھے۔ مذکورہ بس سروس سال 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے کی وجہ سے کچھ عرصے تعطل کا شکار رہنے کے بعد دوبارہ شروع کردی گئی تھی۔اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان جب بھی تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں یا ان کے درمیان بات چیت سرد مہری کا شکار ہوتی ہے تو اس طرح کی سروسز بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔