کپتان کی نئی ٹیم معاشی بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہو پائے گی؟

ارشاد انصاری  بدھ 8 مئ 2019
کپتان کی ٹیم کے سب سے اہم پلیئر مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اپنی اننگ کا آغاز بھرپور انداز سے کیا ہے۔ فوٹو: فائل

کپتان کی ٹیم کے سب سے اہم پلیئر مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اپنی اننگ کا آغاز بھرپور انداز سے کیا ہے۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بائیس مئی کو اپنا پہلا باضابطہ قومی بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے جس کیلئے تیاریاں آخری مراحل میں ہیں۔

پاکستان میں موجود عالمی مالیاتی فنڈ کے جائزہ مشن کے ساتھ مذاکرات بھی اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جبکہ تیسرے اہم فرنٹ پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ساتھ سولہ مئی سے مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔ یہ تینوں اہم ترین معاملات ہیں جن کا ملک کی سیاسی و اقتصادی صورتحال سے براہ راست تعلق ہے جبکہ ان تینوں معاملات میں حکومت کیلئے وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے جس کیلئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ مگر حکومتی سطح پر فیصلہ سازی کے فقدان کی وجہ سے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں، خصوصاً جب سے کپتان نے بیٹنگ لائن تبدیل کی ہے اور نئے کھلاڑی میدان میں اتارے اس وقت سے کنفیوژن بڑھتی جا رہی ہے اور عجلت میں کئے جانے والے فیصلے غیر پائیدار ثابت ہو رہے ہیں۔

کپتان کی ٹیم کے سب سے اہم پلیئر مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اپنی اننگ کا آغاز بھرپور انداز سے کیا ہے اور اپنے روایتی انداز سے ہٹ کر شاہد آفریدی کے انداز میں باہر نکل کر کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور شائد یہ ضرورت بھی ہے مگر ٹیم کو دباو سے نکالنے کیلئے رن ریٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ وکٹ بھی بچانا ہوگی۔

کپتان کیٹیم کے اہم پلیئر حفیظ شیخ نے اپنی معاشی ٹیم بنانا شروع کی ہے اور اس ٹیم میں اپنے انتہائی پراعتماد ماہر معیشت اور گذشتہ سترہ سال سے آئی ایم ایف کے ساتھ منسلک ڈاکٹر رضا باقر کو گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان تعینات کروانے میں کامیاب گئے ہیں ۔

وزیراعظم نے سینئر صحافیوں سے نئے بلدیاتی نظام سے متعلق بریفنگ کے دوران نجی شعبہ سے تعلق رکھنے والے چارٹرڈ اکاونٹنٹ شبر زیدی کو نیا چیئرمین ایف بی آرمقرر کرنے کا اعلان کیا تو یہ اعلان فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ان لینڈ ریونیو اور کسٹمز سروس کے تمام افسران پر بجلی بن کر گرا ۔ اس اعلان کا آنا تھا کہ ایف بی آر کے افسران سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور شبر زیدی کو چیئرمین ایف بی آر بنائے جانے کے حکومتی فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے پر متفق ہوگئے۔ اب اطلاعات یہ ہیں کہ اس معاملے پر بھی حکومت شش و پنج کا شکار ہے۔

باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں علی ارشد حکیم کو چیئرمین ایف بی ا ٓر لگانے کے حوالے سے عدالتی فیصلہ کے بارے میں وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کیا گیا ہے جس کے بعد شبر زیدی کی تقرری کے حوالے سے قانونی پہلووں کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کہیں یہ عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کے زمرے میں تو نہیں آئے گا ۔

جو حالات بنتے جا رہے ہیں اگر ان پر بروقت کنٹرول نہ حاصل کیا گیا تو معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے اورکسی سیاسی جماعت کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا کیونکہ حالات جس تیزی سے بگاڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو ایک سازش کے تحت معاشی ترقی کے سفر سے گمراہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس سے جمہور اور جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال نے جہاں ملکی معیشت کو خطرناک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے وہیں بین الاقوامی سطح پر بھی خطرات کو بڑھا دیا ہے کیونکہ حکومت کیلئے اگلے مالی سال کا بجٹ بنانے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔

آئی ایم ایف گھر میں آ کر بیٹھا ہوا ہے اور دس مئی تک آئی ایم ایف سے مذاکرات ہونا ہیں تو عین ایسے وقت پر ان اہم عہدوں پر اکھاڑ پچھاڑ کردی گئی ہے جو ان مذاکرات کا اہم حصہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر تنقید ہو رہی ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی کالونی بنادیا گیا ہے جبکہ بعض باخبر حلقوں کا کہنا ہے صرف گورنر اسٹیٹ بینک نہیں وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا تقرر بھی عالمی مالیاتی ادارے کے دباو پر ہوا ہے۔

سابق وزیر خزانہ اسد عمر سے آئی ایم ایف بیل آوٹ پیکج کے نام پر مسلسل شرائط تسلیم کرانے کے بعد آئی ایم ایف حکام نے ان کے اخری دورے کے دوران ان سے بات چیت سے انکار کر دیا تھا اور ملک کے پالیسی سازوں کے پاس آئی ایم ایف کے بیل آوٹ پیکج کیلئے وزیر خزانہ کو تبدیل کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا، معاملات اس حد تک پہنچ چکے ہیں، عین بات چیت کے دوران گورنر اسٹیٹ بینک کو بعض شرائط کی مزاحمت پر تبدیل کرنے کا مطالبہ کر دیا گیا اور حکمت سازوں کے پاس گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کو تبدیل کرنے کے سوا کوئی آْپشن نہیں بچا تھا۔

حکومت پر یہ تنقید بھی ہو رہی ہے کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث اس وقت عملی طور پر پاکستانی معیشت عالمی مالیاتی اداروں کے قبضے میں آچکی ہے جس کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں فیصلہ کن قوت سی پیک اور چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت سے خوفزدہ طاقتوں کے پاس ہے۔ امریکہ کے پاس 17 فیصد، سی پیک مخالف جاپان کے پاس سات فیصد ، امریکی حلیف فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے پاس 15 فیصد اور سی پیک مخالف بھارت اور آسٹریلیا کے پاس آئی ایم ایف میں دو فیصد فیصلہ سازی کی طاقت ہے۔

دوسرے لفظوں میں آئی ایم ایف جو مطالبات پاکستان سے منوا رہا ہے اس سے امریکہ، بھارت اور دیگر سی پیک مخالف مغربی اور امریکی حلیف قوتوں کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی، یہی نہیں بلکہ اسے سی پیک اور پاک چائنہ تعلقات سے بھی جوڑا جا رہا ہے اورکہا جا رہا ہے چونکہ آئی ایم ایف سی پیک سے متعلق قرضوں کی تفصیلات مانگ رہا تھا اب اہم عہدوں پر آئی ایم ایف کے لوگوں کو لا کر بٹھایا جا رہا ہے اور تمام کنٹرول آئی ایم ایف کو دیا جا رہا ہے اور موجودہ حکومت کے گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران کئے جانیوالے اقدامات پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور ان اقدامات کو لے کر کہا جا رہا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کا قبضہ تیزی کے ساتھ مکمل ہو رہا ہے جس کا حتمی ہدف سی پیک ہے اور گزشتہ آٹھ ماہ کے فیصلوں کو ادائیگیوں کے توازن میں بحران سمیت دیگر مسائل کی بنیادی وجہ قرار دیا جا رہا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اسوقت خود حکومت اپنی سب سے بڑی اپوزیشن ہے اور جو حالات ہیں ایسے میں حکومت کو کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں ہے اور حکومت خود اپنے بوجھ تلے دبتی چلی جا رہی ہے جس طرح اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی قیادت اور ان کے اہم رہنماوں کو مقدمات اور جیلوںکا سامنا ہے ایسے میں حکومت کے پاس معاملات کو درست کرنے کیلئے بہت سنہری موقع ہے لیکن جس تیزی سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اور حکومت کے خلاف عوام میں غم و غصہ زور پکڑ رہا ہے تو جلد عوام حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر ہوں گے اور عوام کا سونامی حکومت کو بہا لے جائے گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔