- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو برانڈ ایمبیسڈر مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
موبائل زدہ معاشرہ
دسمبر 2017 میں میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ایک جریدے ’’ایم آئی ٹی سلون مینجمنٹ ریویو‘‘ میں ایک مضمون Surviving a day without smartphones (اسمارٹ فونز کے بغیر ایک دن کی بقاء) کے عنوان سے شائع ہوا جس میں حاصل ہونے والے نتائج نہ صرف مغربی معاشرے بلکہ ہمارے پاکستانی معاشرے کےلیے بھی حد درجہ توجہ طلب ہیں۔
تحقیق کے تجرباتی آغاز کےلیے اٹلی اور فرانس کے دو بزنس اسکولوں کے طلبا پر ایک دن کےلیے موبائل کلاس میں لانے پر پابندی لگائی گئی اور اس کے نتیجے میں جو مشاہدات سامنے آئے وہ کچھ اس طرح کے تھے:
بیشتر طلبا سوچوں میں غلطاں اور ڈپریشن کا شکار نظر آئے، جبکہ اکثریت کی مثال اس طرح تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں؛
کچھ طلبا کو اپنا فری پیریڈ اور بریک ٹائم گزارنے میں دِقت کا سامنا کرنا پڑا، جس سے ان میں بوریت اور ذہنی کوفت کے ساتھ ساتھ غصہ اور افسوس کا تاثر بھی دیکھنے کو ملا؛ اور
مزید ایک تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ گزشتہ چند برسوں میں، خصوصاً 2010 سے 2015 کے درمیان، ٹین ایجرز میں ڈپریشن اور خودکشی کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحقیقاتی ٹیم نے آن لائن ایکٹیویٹیز اور ان کے دماغی صحت پر اثرات کے بارے میں خطرناک انکشافات بھی کیے۔
اب آتے ہیں ہم پاکستانی معاشرے کی طرف، جہاں سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال ایک روایت بن چکا ہے، لیکن بذاتِ خود ہمارا سوشل رویہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک طرف جہاں ہم ٹیکنالوجی مینیجمنٹ سے نابلد ہیںٍ، وہیں بیشتر ٹائم پاس اور تفریح کے نام پر قوم کو اخلاقیات اور مزاح کی پستی میں گرانے والی ایک سے بڑھ کر ایک موبائل ایپس دستیاب ہیں۔ ذرا غور کیجیے، کیا اوپر بیان کیے گئے مشاہدات ہمارے معاشرے پر صادق نہیں آتے؟ کیا ہم یا ہمارے اردگرد موجود لوگ، خصوصاً نوجوان، عدم برداشت اور ذہنی عدم توازن کا شکار تو نہیں؟
یہاں پر سوال یہ نہیں کہ اسمارٹ فونز ہماری زندگیوں کو کس طرح آسان بنارہے ہیں، اصل نکتہ یہ ہے کہ کیا ہم نے سوچا کہ اس کی ہمیں کیا قیمت چکانا پڑرہی ہے؟ مختلف تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ موبائل فونز کا بے دریغ استعمال ہماری دماغی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
’’موبائل فون نشے‘‘ کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اس کا ادراک نہیں، اسی لیے ہم بحیثیت والدین خود بھی اس میں برابر کے قصوروار ہیں۔ بیٹے کے اچھے نمبر آئے نہیں اور موبائل پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں گرا نہیں۔ نتیجتاً آج کل کے اسمارٹ فون بھی کچھ کچھ ’’معشوق مزاج‘‘ صلاحیتوں کے حامل ہوگئے ہیں۔ کسی کے ہاتھوں میں گئے اور پل بھر میں اسے اپنا بنالیا۔
یاد رکھیے! آپ کے بچے کی ذہنی نشوونما موبائل سرگرمی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اگر کہیں کوئی ایسی ضرورت پیش آبھی جائے تو بچے کو پاس بٹھا کر اپنی نگرانی میں تعلیمی ایپس استعمال کروائی جاسکتی ہیں، چہ جائیکہ اسے مستقل طور پر موبائل فون سے نواز دیا جائے۔ تعلیمی اداروں کو اس معاملے میں خصوصی توجہ اور آگہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی کو کس طرح اپنے روزمرہ معاملات میں شامل کیا جائے تاکہ اس کے منفی اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہمارا معاشرہ ایک موبائل زدہ معاشرہ بن کر رہ جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔