سپریم کورٹ ای کورٹ سسٹم رکھنے والی دنیا کی پہلی عدالت عظمیٰ بن گئی

ویب ڈیسک  پير 27 مئ 2019
ای کورٹ سسٹم سے سائلین کے وقت اور پیسے کی بچت ہوگی، چیف جسٹس فوٹو: فائل

ای کورٹ سسٹم سے سائلین کے وقت اور پیسے کی بچت ہوگی، چیف جسٹس فوٹو: فائل

 اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ای کورٹ سسٹم رکھنے والی دنیا کی پہلی عدالت عظمیٰ کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔

سپریم کورٹ میں ای کورٹ سسٹم کے تحت باضابطہ مقدمات کی سماعت کا آغاز ہوگیا ، اس طرح پاکستان کی عدالت عظمیٰ ای کورٹ سسٹم رکھنے والی دنیا کی پہلی سپریم کورٹ بن گئی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ویڈیو لنک پر کراچی میں موجود وکلاء کو مبارک باد دی، انہوں نے کہا کہ آج عدالتی تاریخ میں نئے باب کا آغاز کر رہے ہیں، ہم آج سستے اور فوری انصاف کی آئینی ذمہ داری کی جانب اہم قدم اٹھارہے ہیں، وکلاء کے تعاون سے ہم نئی چیز کرنے جا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا کی کسی سپریم کورٹ میں ای کورٹ سسٹم موجود نہیں،ای کورٹ سسٹم سے سائلین کے وقت اور پیسے کی بچت ہوگی، آئی ٹی کمیٹی کے انچارج جسٹس مشیر عالم اور جسٹس منصورعلی شاہ مبارک باد کے مستحق ہیں،چیئرمین اور ڈی جی نادرا نے دن رات محنت کرکے اس سسٹم کو ممکن بنایا۔

جسٹس آصف کھوسہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ پر برہم

ای کورٹ کے ذریعے پہلے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ضمانت کی درخواست پر 3 سال تک فیصلہ نہ کرنے پر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ پر برہمی کرتے ہوئے ملزم نور محمد کی درخواست ضمانت منظور کرلی جب کہ سابق ایڈوکیٹ جنرل سندھ یوسف لغاری ایڈوکیٹ ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دینے والے پہلے وکیل بن گئے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ کے روبرو ویڈیو لنک پر قتل کے مقدمہ میں نامزد ملزم نور محمد کی ضمانت کی قبل از وقت گرفتاری کی سماعت ہوئی۔

سابق ایڈوکیٹ جنرل سندھ اور ملزم نور محمد کے وکیل یوسف لغاری ایڈوکیٹ نے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کا نام مجسٹریٹ کے کہنے پر مقدمے میں شامل کیا گیا جبکہ پولیس تفتیش سے نام نکال چکی تھی، پولیس رپورٹ کے مطابق مقتول کا قتل بارہ بجے ہوا اور سوا بارہ بجے پوسٹ مارٹم بھی مکمل ہوگیا، یہ کیسے ممکن ہے؟

یوسف لغاری ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ 3 سال تک ضمانت کی درخواست ہائیکورٹ حیدر آباد سرکٹ میں زیر التو رہی اور پھر درخواست مسترد کردی گئی۔ سپریم کورٹ ضمانت کی درخواست پر 3 سال تک فیصلہ نہ کرنے پر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ پر برہم ہوگئی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریماکس دیئے بظاہر سندھ ہائیکورٹ کا یہ اقدام کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے سن کر دھچکا لگا کہ ضمانت کی درخواست سندھ ہائیکورٹ میں 3 سال تک زیر التوا رہی۔

چیف جسٹس نے سندھ ہائیکورٹ حیدر آباد کے فیصلے کو سپریم جوڈیشل کونسل بھیجنے کی ہدایت کردی اور ریماکس میں کہا کہ ماڈل کورٹس 3 دن میں ضمانت قبل از وقت گرفتاری کی درخواستیں نمٹا رہی ہیں اور سندھ ہائیکورٹ 3 سال میں ایک ضمانت پر فیصلہ کر رہی ہے، سیکریٹری سپریم جوڈیشل کونسل اس فیصلے کو چیئرمین کونسل کے روبرو پیش کریں، ہائیکورٹ کے اس طرح کے فیصلے پر چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل ضابطے کے مطابق فیصلہ کرے۔

عدالت نے ملزم نور محمد کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔ ملزم کے خلاف تھانہ شہداد پور میں 2014ء میں قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ٹرائل کورٹ نے 2016ء میں ملزم کی ضمانت کی درخواست مسترد کی۔ 2016ء سے اب تک درخواست سندھ ہائیکورٹ حیدر آباد سرکٹ میں زیر التوا رہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔