عمران خان کا قوم سے خطاب اور چند گزارشات

مزمل سہروردی  جمعرات 13 جون 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری پر عمران خان اور ان کی جماعت نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ صاف لگ رہا ہے کہ وہ ان گرفتاریوں سے نہ صرف خوش ہیں بلکہ وہ اس کو اپنی سیاسی فتح سمجھ رہے ہیں۔

اسی تناظر میں بجٹ کے بعد قوم سے خطاب میں عمران خان نے ایک اور اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے جو پاکستان کے قرضوں میں ہونے والے چوری اور کرپشن کی تحقیقات کرے گا۔ میں ذاتی طور پر ایسے کمیشن کے حق میں ہوں ۔ کم از کم ایک دفعہ بات طے تو ہو جائے کہ کتنی کرپشن ہوئی ہے۔ کس نے کتنا قرضہ کھایا ہے۔ پاکستان کیوں مقروض ہے۔ کس نے کتنا قرض لیا ہے۔ یہ قرض کہاں لگا ہے۔ کون کتنا قرض کھا گیا ہے۔

عمران خان بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیدادوں پر بھی بہت پریشان نظر آئے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ بیرون ملک یہ تمام جائیدادیں پیسے چوری کر کے بنائی گئی ہیں۔ منی لانڈرنگ کی گئی ہے۔ غیر قانونی طریقے سے پیسے باہر گئے ہیں۔ ویسے بھی اس وقت پاکستان میں اثاثے ظاہر کرنے کی ایک ایمنسٹی اسکیم چل رہی ہے جس میں لوگوں کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ بیرون ملک میں اپنی جائیدادیں اور دولت ظاہر کر دیں۔ اس طرح اس وقت ملک میں چوری اور منی لانڈرنگ سے بنائی گئی دولت اور جائیدادیں جائز کرنے کی اسکیم چل رہی ہے۔ اس تناظر میں یہ کمیشن کتنا فعال ہو گا ۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہوگا۔

اس وقت ملک ایک معاشی بحران کا شکار ہے۔ تحریک انصاف کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ معاشی بحران ہے۔ اپوزیشن کی عمران خان پر چڑھائی بھی اسی معاشی بحران کی وجہ سے ہے۔ میں مانتا ہوں کہ عمران خان کو ملک کوئی اچھی حالت میں نہیں ملا ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس بحران سے نبٹنے کے لیے عمران خان اور ان کی ٹیم کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ معاشی بحران اپنی جگہ ملک پر قرض اپنی جگہ لیکن اس صورتحال سے نبٹنے کے لیے عمران خان کی ٹیم کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اپنی جگہ موجود ہیں۔

اب عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ صرف شریف فیملی اور زرداری فیملی کو جیل میں ڈالنے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ اگر ملک سے باہر موجود دولت ناجائز طریقے سے گئی ہے تو سب سے پہلے عمران خان کو اپنے ساتھ موجود لوگوں کو کہنا چاہیے کہ اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو اپنی اپنی بیرون ملک موجود جائیداد واپس لے آئیں۔ اگر دبئی میں پاکستانیوں کی نو ارب ڈالر کی جائیدادیں موجود ہیں تو یہ صرف شریف فیملی اور زرداری کی نہیں ہیں۔ اس میں ان لوگوں کی جائیدادیں اور دولت بھی شامل ہیں جو اس وقت تحریک انصاف میں ہیں۔

عمران خان کو یہ شرط رکھنی چاہیے کہ نہ تو میری جماعت اور نہ ہی میرے ساتھ شریک اقتدار ایسا کوئی شخص نہیں ہوگا جس نے اپنی دولت اور جائیداد بیرون ملک رکھی ہوگی۔ اگر پاکستان میں اقتدار کے مزے لینا چاہتے ہیں تو آپ کی دولت اور جائیداد پاکستان میں ہونی چاہیے۔ کیوں تحریک انصاف کے وزراء کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں۔ وہ بیرون ملک سے اپنی ساری جائیدادیں واپس پاکستان لے آئیں۔ اس سے پاکستان کے معاشی بحران کو حل کرنے میں مدد بھی ملے گی۔

میں عمران خان سے متفق ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اقتدار تو پاکستان میں انجوائے کریں اور دولت باہر رکھیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اقتدار اور سیاست پاکستان میں اور بچے بیرون ملک ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سیاست پاکستان میں اور کاروبار بیرون ملک۔ اس لیے سب سے پہلے تحریک انصاف کو اپنی جماعت اور اپنی حکومت میں شامل تمام افراد پر یہ لازمی قرار دینا چاہیے کہ وہ اپنی بیرون ملک موجود دولت اور جائیداد پاکستان لے کر آئیں۔ اس سے پاکستان کا معاشی بحران حل ہوجائے گا۔ ڈالروں کی برسات ہو جائے گی۔ بیرونی سرمایہ کاری بھی آجائے گی۔

روپے کی قدر میں اضافہ ہو جائے گا۔ کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور معیشت کا پہیہ چل پڑے گا۔لیکن اگر عمران خان کے ساتھیوں کی بیرون ملک جائیدادیں اور دولت جائز رہیں گی تو دشمنوں کی ناجائز کیسے ہونگی۔ مجھے لگتا ہے کہ عمران خان کے ارد گرد چوری کھانے والے مجنوں اکٹھے ہو گئے ہیں۔وہ ان کے ایجنڈے سے سنجیدہ نہیں ہیں۔ آپ ڈیم فنڈ ہی لے لیں۔ عمران خان شوکت خانم اور نمل کی فنڈنگ کی کامیابی کی داستانیں سناتے تو تھکتے نہیں ہیں لیکن سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم ڈیم فنڈکے لیے چندہ کیوں نہیں اکٹھا کر سکی۔ ڈیم فنڈ کی مہم کیوں روک دی گئی۔ کیوں تحریک انصاف اور عمران خان کی اپیل پر پاکستانیوں اور بیرون ملک پاکستانیوں نے ڈیم فنڈ میں چندہ نہیں دیا۔ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ عمران خان پہلے سال میں ٹیکس اکٹھا کرنے میں کیوں ناکام ہوئے ہیں۔

کیوں بیس سال میں سب سے کم ٹیکس اکٹھا ہوا ہے۔ آپ تو بتاتے تھے کہ جب حکمران چور ہوں تو لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ لیکن آپ تو ایماندار ہیں۔ ٹیکس محصولات میں کمی بھی کیا اپوزیشن کا قصور ہے۔ کہیں نہ کہیں آپ کو اپنا احتساب بھی کرنا ہوگا ۔ تب ہی ملک کے مسائل حل ہونگے۔ ملک میں اس وقت نامکمل احتساب ہو رہا ہے۔ قوم احتساب کے نعرے پر عمران خان کے ساتھ ہے۔ لیکن قوم صرف اپوزیشن کا احتساب کیسے قبول کر لے۔

احتساب کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے آپ کو اپنی صفوں سے بھی کالی بھیڑوں کی قربانی دینا ہوگی۔ اس تاثر کو ختم کرنا ہوگا کہ تحریک انصاف میں شامل ہونے سے آپ احتساب سے بچ سکتے ہیں۔ ماضی میں بھی حکومتوں نے یک طرفہ احتساب کی کوشش کی جو ناکام ہوئی ، نواز شریف نے یک طرفہ احتساب کی کوشش کی جو ناکام ہوئی۔ اسی طرح پرویز مشرف نے بھی یک طرفہ احتساب کی کوشش وہ بھی ناکام ہوئی۔ عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ یک طرفہ احتساب کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یک طرفہ احتساب حقیقی چوروں کو بھی مظلوم بنا دیتا ہے۔

ایک اور بات بہت چل رہی ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل یہ ہے کہ ملک میں پانچ ہزار امیر لوگوں کو لٹکا دیا جائے۔ پانچ ہزار لوگوں کو لٹکانے کی بات رمضان کی ایک بہت اہم افطاری میں بھی ہوئی۔ جہاں یہ بات ہوئی کہ اگر یہ حکومت ناکام ہوئی تو ملک میں مارشل لا آسکتا ہے۔ اور اگر اس بار مارشل لا آیا تو ملک میں پانچ ہزار لوگوں کو لٹکا دیا جائے گا۔ لیکن اگر حکومت واقعی پاکستان کے مسائل کا حل پانچ ہزار لوگوں کو لٹکانے میں سمجھتی ہے تو اسے اس سمت میں تیزی سے کاروائی شروع کرنی چاہیے۔

ایسی قانون سازی کرنی چاہیے جو ان پانچ ہزار لوگوں کولٹکانے کے لیے راہ ہموار کرے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ان پانچ ہزار لوگوں میں تحریک انصاف سے نیب زدہ لوگ شامل ہوں گے یا عمران خان نے ان کو کلین چٹ جاری کر دی ہے۔  عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ اب باتیں کرنے کا وقت گزر گیا ہے۔ لوگ اب مزید ان کی باتوں کے سحر میں نہیں رہ سکتے۔ اس لیے مجوزہ کمیشن بھی جلدی بنانا چاہیے۔ ہر چور کو سزا ملنی چاہیے۔ جس نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اس کو معافی نہیں ملنی چاہیے۔ لیکن یہ یک طرفہ احتساب کی قبولیت نہیں ہے۔ اس لیے احتساب کی ساکھ کو بھی برقراررکھنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔