- شمالی کوریا کا کروز میزائل لیجانے والے غیرمعمولی طورپربڑے وارہیڈ کا تجربہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹی20 آج کھیلا جائے گا
- بابر کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا مشورہ
- موبائل فون صارفین کی تعداد میں 37 لاکھ کی ریکارڈ کمی
- گیلپ پاکستان سروے، 84 فیصد عوام ٹیکس دینے کے حامی
- ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے غلط استعمال پر 10کروڑ روپے جرمانہ
- معیشت2047 تک 3 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وزیر خزانہ
- پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں نے سبسڈی مانگ لی
- پاکستان کی سعودی سرمایہ کاروں کو 14 سے 50 فیصد تک منافع کی یقین دہانی
- مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال، عالمی منڈی میں خام تیل 3 ڈالر بیرل تک مہنگا
- انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پر محمد عامر کے ڈیبیو جیسے احساسات
- کُتا دُم کیوں ہلاتا ہے؟ سائنسدانوں کے نزدیک اب بھی ایک معمہ
- بھیڑوں میں آپس کی لڑائی روکنے کیلئے انوکھا طریقہ متعارف
- خواتین کو پیش آنے والے ماہواری کے عمومی مسائل، وجوہات اور علاج
- وزیر خزانہ کی چینی ہم منصب سے ملاقات، سی پیک کے دوسرے مرحلے میں تیزی لانے پر اتفاق
- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
حیدرآباد، پہلی سرکاری جامعہ کو داخلوں کیلیے ایک سال کا NOC جاری
کراچی: اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان نے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد کی پہلی سرکاری جامعہ ’’گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدر آباد‘‘ کو داخلوں کی اجازت دیتے ہوئے مختلف شرائط سے مشروط ایک سال کے لیے این اوسی جاری کر دیا اور ابتدائی طور پر یونیورسٹی کو 8 مختلف شعبہ جات میں 40/40 نشستوں پرگریجویٹ پروگرام میں داخلوں کی اجازت دی گئی ہے۔
یہ این اوسی ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب سندھ حکومت کی جانب سے نئے مالی سال 2019/20کے سالانہ بجٹ میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد کے لیے بجٹ مختص ہی نہیں کیاگیااوریونیورسٹی انتظامیہ کوبغیرکسی بجٹ کے داخلے شروع کرنے ہیں، تمام کلیدی انتظامی اورتدریسی عہدوں پر بھرتیوں کاعمل بھی اسی وجہ سے تعطل کاشکارہیں، اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی جانب سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد کو داخلوں کے لیے دی گئی این اوسی کے مطابق یونیورسٹی کو شعبہ کیمیا، کمپیوٹرسائنس، طبعیات، حیوانیات، نباتیات، ریاضی، انگریزی اورتعلیم کے شعبوں میں گریجویٹ پروگرام میں داخلوں کی اجازت دی گئی ہے۔
تاہم اس ایک سالہ این اوسی کی توسیع کوایچ ای سی کی جانب سے کے شرائط کوپوراکرنے سے مشروط کیاگیاہے جس کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ تمام ’’اسٹیچوری باڈیز‘‘سینیٹ ،سینڈیکیٹ، اکیڈمک کونسل اور ایفیلیشن کمیٹی کی فوری تشکیل کرے گی، واضح رہے کہ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ اوربورڈآف اسٹڈیزترتیب دیا جاچکا ہے تاہم دیگرآئینی اداروں کی تشکیل ابھی باقی ہے، این اوسی میں کہاگیاہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ ایچ ای سی کے قواعد کے مطابق فیکلٹی کی بھرتی کی پابندہے جس کے لیے ہر شعبے میں ایک پروفیسر،ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر،دواسسٹنٹ پروفیسر اور دو لیکچررشامل ہوں، پروفیسراورایسوسی ایٹ پروفیسرکے لیے پی ایچ ڈی ہونالازمی ہوگا، یونیورسٹی کواپنی حدود میں پہلے سے موجودکالج سیکشن کوعلیحدہ کرنا ہو گا۔
رجسٹرار، ناظم امتحانات اورناظم مالیات کے تینوں کلیدی عہدوں پرفوری مستقل بھرتی کے لیے بھی کہاگیاہے، ایچ ای سی کی اجازت کے بغیرفی الحال یونیورسٹی کوپوسٹ گریجویٹ تعلیم’’ایم ایس؍ایم فل؍پی ایچ ڈی‘‘ شروع کرنے سے روکاگیاہے، یونیورسٹی سے کہاگیاہے کہ وہ اپنی تجربہ گاہوں کوگریجویٹ پروگرام کے مطابق ترتیب دیں اورتجربہ گاہوں میں ہواکے گزرکے لیے ’’وینٹیلیشن‘‘کے ساتھ ساتھ زندگی بچانے والے آلات کاانتظام کریں جبکہ اپنے کتب خانے کومزیدبہتربناتے ہوئے ہر شعبے کے لیے کم از کم 1500 کتابوں کاانتظام کریں۔
بین الاقوامی معیار کے 15ریسرچ جرنل کولائبریری کاحصہ بنائیں، ایچ ای سی کے قواعد کے تحت کوالٹی انہاسمنٹ سیل بناتے ہوئے اس میں عملہ بھرتی کیاجائے اورانٹرنیٹ کی سہولت کو مزید بہتر کیا جائے،10فیصد طلبا کواسکالرشپ دینے کی پالیسی وضع کی جائے اوراس حوالے سے عملدرآمد رپورٹ دسمبر 2019 تک ایچ ای سی کوجمع کرائی جائے ان کے پاس فنڈزنہیں ہیں، نئی بھرتیوں کے لیے 13پی ایچ ڈی ہیں، ادھر ’’ایکسپریس‘‘ کے رابطہ کرنے پریونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلرڈاکٹر ناصرالدین شیخ کاکہناتھاکہ یونیورسٹی کے آئینی ادارے مکمل کیے جارہے ہیں۔
ایفیلیشن کمیٹی کی تشکیل کے لیے یونیورسٹی کی الحاق سے متعلق حدود نوابشاہ یونیورسٹی اورسندھ یونیورسٹی کے ساتھ طے کی جارہی ہیں، فیکلٹی اورکلیدی انتظامی عہدوں پر تقرریوں کے لیے اشتہاردیاجائے گاتاہم یہ سب کچھ یونیورسٹی کے فنڈزسے مشروط ہے، اس وقت یونیورسٹی کے پاس سندھ حکومت یاایچ ای سی کی جانب سے کسی قسم کافنڈموجودنہیں،صرف گورنمنٹ کالج کالی موری کا100 ملین روپے کافنڈہے جس میں کالج کے عملے کی تنخواہیں اورکالج کے دیگراخراجات بھی پورے ہونے ہیں تاہم ان کاکہناتھاکہ فی الحال کالج سے یونیورسٹی میں منتقل ہونے والے عملے کے افرادمیں سے ہی کچھ کوکلیدی عہدوں کاچارج دیاگیاہے، انھوں نے بتایاکہ سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈزسے بات ہوئی ہے، ان کاکہناہے کہ جوفنڈزسندھ کی تمام جامعات کے لیے مختص کیاگیاہے اس میں سے کچھ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآبادکودینے کی کوشش کریں گے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔