بچوں کی تربیت کے لیے خود کو بھی بدلنا ہو گا

افشاں شاہد  منگل 25 جون 2019
والدین کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تو بااخلاق  بنانا چاہتے ہیں، لیکن اپنے اخلاق کو سنوارنے کے لیے تیار نہیں۔ فوٹو: فائل

والدین کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تو بااخلاق بنانا چاہتے ہیں، لیکن اپنے اخلاق کو سنوارنے کے لیے تیار نہیں۔ فوٹو: فائل

جس طرح کسی عمارت کی بنیاد مضبوط اور پائیدار ہو تو وہ موسمی تغیرات اور ہر قسم کے حوادث برداشت کرنے کے بعد بھی اپنی جگہ قائم رہتی ہے، بالکل اسی طرح اگر بچوں کی تربیت بھی بہترین خطوط پر کی جائے اور انہیں ابتدائی عمر سے ہی اچھے بُرے کا فرق سمجھایا جائے تو مضبوط کردار کے مالک بنتے ہیں۔

جب ہم کسی باتمیز اور مؤدب بچے سے بات کرتے ہیں تو خوشی محسوس کرنے کے ساتھ اس کے والدین خصوصاً ماں کی تعریف کرنے پر بھی خود کو مجبور پاتے ہیں کہ اس نے اپنی اولاد کو ادب اور تمیز سکھائی ہے۔

یوں تو بچے کی تربیت میں ماں باپ دونوں کا کردار اہم ہوتا ہے، لیکن بچہ زیادہ وقت اپنی ماں کے ساتھ گزارتا ہے۔ اس لیے زیادہ کریڈٹ ماں کو دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں  ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے، لیکن آج کے دور کی مائیں اپنے اس کردار سے غافل نظر آتی ہیں۔ زمانہ ایسا بدلا ہے کہ دو سال ہوئے نہیں کہ بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کی کوششیں شروع کر دیں۔

صبح صبح بچوں کو روتا دھوتا اسکول میں چھوڑ کر خود مطمئن ہو جاتی ہیں کہ انہوں نے بچے کے لیے ایک بہترین درس گاہ کا انتخاب کر لیا ہے اور یوں اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کرلی ہیں۔ ان کے نزدیک اسکول ان کی اولاد کی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار ہوگا، لیکن بعد میں یہی والدین بچوں کی تربیت کے حوالے سے شکایت کرتے ہیں اور ان کے رویے سے نالاں نظر آتے ہیں۔

آج کل زیادہ تر والدین کی یہی شکایت ہے کہ ان کے بچے نافرمان اور باغی ہوتے جارہے ہیں۔ وہ من مانی کرتے ہیں اور بڑوں کا کہا نہیں مانتے۔ ان کی کسی بات کو اہمیت نہیں دیتے اور اخلاقی اعتبار سے کم زور اور پست ہیں۔ لیکن اگر والدین غور کریں اور اپنی روزمرہ کی زندگی کا جائزہ لیں تو انہیں معلوم ہوگاکہ بچوں کو نافرمان اور خود سَر بنانے کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ موجودہ دور کی ترجیحات اور ضروریات بہت بدل چکی ہیں اور اولاد کی پرورش، تعلیم اور ان کے معمولات کو اسی تناظر میں دیکھنا اور سنبھالنا ہو گا، مگر بنیادی بات والدین کی توجہ، راہ نمائی اور گھر کا ماحول ہے جو بچوں کی تربیت اور کردار سازی میں اسی طرح اہمیت رکھتا ہے جیسا کہ دہائیوں پہلے رکھتا تھا۔

پرانے دور کی عورتیں آج کی خواتین کی تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود اپنے بچوں کی تربیت بہترین انداز سے کرتی تھیں۔ انہیں بچوں کی تربیت کرنے کے لیے زیادہ مشقت بھی نہیں کرنی پڑتی تھی کیوں کہ وہ اپنے بڑوں سے شائستہ عادات اور نیک اطوار سیکھتے تھے۔

پرانے زمانے کی خواتین صبر و برداشت کے ساتھ نشست و برخاست کے طریقے اور بڑوں سے ادب سے پیش آنا جانتی تھیں۔ جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے دوسروں کی کڑوی کسیلی باتوں کو نظرانداز کر کے سب سے محبت و شفقت سے پیش آتی تھیں۔ اس لیے ان کے بچے بھی اسی کے عادی بنتے تھے۔ وہ نہ صرف اپنے والدین کا احترام کرتے تھے بلکہ ہر فرد کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

اس کے برعکس آج کی خواتین میں برداشت کی کمی ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کے سامنے لڑنے جھگڑنے کے ساتھ بدکلامی اور بدتمیزی کا مظاہرہ عام ہو گیا ہے۔ اہلِ خانہ کے علاوہ گھر کے ملازمین اور دیگر لوگوں سے بھی بات بات پر ہتک آمیز رویہ اختیار کرنے سے ان کی اولاد بھی اسی کی عادی ہو رہی ہے۔

بچے ماں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور کم سنی میں ان کا زیادہ تر وقت اپنی ماں کے ساتھ گزرتا ہے۔ وہ اپنی ماں کا دوسروں سے برتاؤ اور سلوک دیکھتے ہیں اور یہی کچھ سیکھتے ہیں۔ وہ بڑے ہو کر خود بھی یہی رویہ اپناتے ہیں۔ ماں کے بعد باپ بھی یہی غلطی کرتا ہے۔ اکثر مرد بچوں کے سامنے بیوی سے جھگڑے کی صورت میں بدکلامی اور بسا اوقات مار پیٹ بھی کرتے ہیں۔

اسی طرح گھر سے باہر کسی شخص سے جھگڑا ہو جائے تو بچوں کی موجودگی میں مغلظات بکنے سے باز نہیں آتے اور عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے والدین کا بچہ کس طرح فرماں بردار اور باادب ہو سکتا ہے۔ اگر والدین اپنے بچے کی بہترین تربیت کرنا چاہتے ہیں، اپنے بچوں کو باادب اور فرماں بردار بنانا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے خود کو بدلنا ہو گا اور وہ تمام خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنا ہوں گی جو وہ اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

آج کے والدین کو اولاد سے شکایت ہے کہ وہ سارا دن موبائل فون استعمال کرتے ہیں اور ان کو اہمیت نہیں دیتے، لیکن خود والدین بھی اپنا قیمتی وقت موبائل فون کو دے دیتے ہیں۔ وہ وقت جو ان کی فیملی اور بچوں کی تربیت کے لیے اہم ہوتا ہے وہ یہ مشین ہڑپ کر جاتی ہے۔ خود مائیں بھی بچوں کے تنگ کرنے پر ان کو موبائل فون تھما دیتی ہیں اور بعد میں بچوں پر چیختی چلاتی ہیں کہ اس موبائل فون کی وجہ سے پڑھائی اور کھانا پینا سب متاثر ہو رہا ہے۔

بڑے ہونے پر یہ شکایت کرتی ہیں کہ بچے ماں کو وقت نہیں دیتے۔ والدین کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تو بااخلاق  بنانا چاہتے ہیں، لیکن اپنے اخلاق کو سنوارنے کے لیے تیار نہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی شخصیت کو ایک بہترین سانچے میں ڈھالیں تاکہ بچے ان سے متاثر ہوں کیوں کہ والدین ہی اولاد کے رول ماڈل اور آئیڈیل ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔