معاشرے کا اخلاقی بگاڑ

ارم فاطمہ  جمعـء 5 جولائی 2019
ہم انتہائی تنگ نظر بن گئے ہیں۔ ہم غلط چیزوں یا عمل کی اصلاح کرنے کے بہ جائے زبانی جمع خرچ کر لیتے ہیں۔ فوٹو: رائٹرز

ہم انتہائی تنگ نظر بن گئے ہیں۔ ہم غلط چیزوں یا عمل کی اصلاح کرنے کے بہ جائے زبانی جمع خرچ کر لیتے ہیں۔ فوٹو: رائٹرز

معاشرے کے ماحول اور فضا کو خوب صورت اور باہمی محبت اور رواداری سے بہترین بنانے میں فرد بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

اگر معاشرے کے افراد کے مابین ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام، دکھ سکھ بانٹنے اور مصیبت میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا جذبہ بیدار رہے تو معاشرے کی خوب صورت تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔

قرآن بھی ایک عام فرد سے اسی اخلاقی کردار کے مظاہرے کا تقاضا کرتا ہے جس کے مطابق سب انسان ایک دوسرے کو نیک عمل کی تلقین کرتے رہیں اور صبر و حکمت سے حالات کو بدلنے کی کوشش کریں۔ انسان کی ہدایت اور راہ نمائی کے لیے ہر دور میں انبیائے کرامؑ بھیجے جاتے رہے۔ رسول کریمؐ نے حسن اخلاق کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا : ’’میں عمدہ اخلاق کی تکمیل کے لیے خدا کی جانب سے بھیجا گیا ہوں۔‘‘ ابن خلدون نے کہا ہے کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے، جب کہ بُرے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے۔

افسوس کہ آج مسلمان مذہب سے دوری کے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت کو بھی بھول گئے ہیں۔ بے راہ روی کا شکار ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں اخلاقی زوال، بے حیائی، جھوٹ، چغل خوری، مکر و فریب، غرور و تکبر سرایت کرگئے ہیں۔ اخلاقی، سماجی اور ذہنی پس ماندگی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ جس ملک میں سبیل کی ٹینکی کے ساتھ رکھے گلاس کو زنجیر سے باندھنا پڑے، یہی لوگوں کی سوچ اور رویے کا عکاس ہے۔ ہمارے معاشرے میں تشدد اور عدم رواداری بڑھتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم خود ماحول کو خراب کر رہے ہیں، گندی پھیلا رہے ہیں، درختوں کو کاٹ رہے ہیں، ایک دوسرے کی عزت نفس مجروح کر رہے ہیں۔

افسوس! ہم انتہائی تنگ نظر بن گئے ہیں۔ ہم غلط چیزوں یا عمل کی اصلاح کرنے کے بہ جائے زبانی جمع خرچ کر لیتے ہیں۔ ہمارا اصلاح کا درس اپنے گھر سے شروع نہیں ہوتا، بل کہ ہم ہمیشہ دوسروں کی تاک میں رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ معاشرے کی حالت زار پر صرف رسماً کُڑھتے اور عمل میں صفر ہیں۔ ہم جھوٹ بولتے ہیں کیوں کہ باقی لوگ بھی جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہم بے ایمانی کرتے ہیں کیوں کہ ایمان دار کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں ہے۔ ہم ناجائز طریقوں سے پیسہ اس لیے کما رہے ہیں کیوں کہ معاشرے میں صرف پیسے والے کی عزت ہے۔ ہر برائی کا جواز تلاش کرنا ہماری زندگی کا غالب حصہ ہے۔ ہم برائی کو بھی فیشن سمجھتے ہوئے اس لیے اپناتے ہیں کہ معاشرے کے بیشتر لوگ یہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہم تعلیم شعور حاصل کرنے کے لیے نہیں بل کہ پیسہ کمانے کے لیے حاصل کرتے ہیں۔

معاشرہ اکائی سے بنتا ہے۔ ہر شخص معاشرے کا حصہ ہے۔ ہم خود کو نہیں، معاشرے کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ہر برائی اور خرابی دوسروں میں ہے۔ اس منفی سوچ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر فرد اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں میں خرابیاں اور برائیاں دیکھنے لگتا ہے۔ ہم اپنی ذمے داریوں سے صرف نظر اور اپنی برائیوں کا جواز پیدا کرتے ہیں۔ عام فرد نے دیکھا کہ حکم ران اور مقتدر طبقہ کرپشن میں ملوث ہیں تو انہیں بھی جہاں موقع ملا بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیے۔ جنہیں کہیں انصاف نہیں ملتا، وہ دوسروں پر ظلم کرنے سے پیچھے نہیں رہتے۔ تیز رفتار گاڑی چلا کر لوگوں کو مار ڈالنے والے ڈرائیورز، کھلے عام رشوت لینے والا اہل کار، بدعنوان سرکاری افسران، بددیانت تاجر، ان جیسے بے شمار لوگ اپنے دائرۂ اختیار میں سب سے بڑے ظالم ہوتے ہیں۔

ہم سب ذاتی مفادات پر مبنی زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارے سامنے کوئی بڑا اجتماعی مقصد نہیں ہے۔ دوسری اقوام حب الوطنی کے جذبے سے، یک جہتی اور انفرادی و اجتماعی شناخت کے بھرپور احساس سے اپنی بقاء و تحفظ اور فروغ کے لیے قربانی دیتی ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے لیے ایک نظریۂ حیات تخلیق کیا ہے، جو اسلام کی صورت میں ہمیں پہلے سے حاصل تھا۔ ایسے میں ضروری تھا کہ نعروں کے بہ جائے، تعلیم کے ذریعے اسلامی تصورات کو ذہنوں میں زندہ کیا جاتا۔ معاشرے میں اسلام کے فروغ کو ہدف بنایا جاتا۔ اسلام اور شریعت کی درست تصویر سامنے لائی جاتی۔ افسوس! ہم خود کو دائرۂ اسلام کا مکیں بتاتے ہیں، مگر عملی طور ہمارا ہر دائرہ صوبائی سرحدوں اور لسانیت تک محدود ہے۔ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر اصرار ہے مگر اس کے ساتھ اپنی فرقہ وارانہ شناخت پر بھی فخر ہے۔

اصل بات یہ ہے ہم بہ حیثیت مسلمان اپنے مقصد اور نصب العین کو بھلا چکے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ایک قوم بننے کی واحد امید اسلام ہے، کیوں کہ یہی وہ واحد پہلو ہے جو ہمیں متحد کرسکتا ہے۔ دین کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ بندوں کے حقوق ادا کیے بغیر رب کو راضی نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اپنے اخلاق و کردار کو بہترین بنانے کی بھرپور سعی نہیں کرتے اور دوسروں تک حق بات پہنچانے میں دل چسپی رکھتے ہے۔ ہمیں دوسروں کو ان کے فرائض یاد دلانے کے ساتھ اپنی ذمے داریاں بھی یاد رکھنا چاہییں۔

دین کا ظاہری ڈھانچا بھی فکری اور عملی سطح پر انسان کے اخلاق و کردار کو سنوارنے میں مددگار ہوتا ہے۔ جیسے کہ خدا کو معبود اور سب سے بڑا ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم یہ سوچیں گے سب انسان برابر ہیں۔ اچھے عمل کے سوا کسی کو فضیلت نہیں۔ نماز، بُرائیوں سے روکتی ہے۔ روزہ، خدا کی نعمتوں کی قدر و قیمت کا احساس دلاتا اور حدود کی پابندی کی تربیت دیتا ہے۔ زکواۃ خدا کی محبت کے ساتھ مال و دنیا سے بے رغبتی اور فقراء کی مدد کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ حج اور عمرہ ناصرف خدا کے نزدیک لاتا ہے بل کہ ایک معاشرے میں رہتے ہوئے دیگر افراد کے ساتھ رواداری اور اچھا سلوک کرنے کا درس بھی دیتا ہے۔

ہم لوگ کثرت سے اپنے معاشرے کے اخلاقی بگاڑ پر گفت گُو کرتے اور اپنی فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ ہم بھی اس قوم اور معاشرے کے فرد ہیں۔ اس صورت حال میں صرف افسوس کرکے ہم اپنی جان نہیں چھڑا سکتے۔ یہ ہماری مذہبی، قومی، اخلاقی ذمے داری ہے کہ اپنی حد تک غلط رویوں کے خلاف جدوجہد کریں۔ اپنی ذمے داری پوری کریں۔ جو لوگ اپنی قوم اور معاشرے کو بھول کر اپنی ذات تک محدود ہوجاتے ہیں، صرف باتوں اور تبصروں پر گزارا کرتے ہیں، تاریخ بتاتی ہے وہ خسارے میں رہتے ہیں۔ آج ہم بھی اسی خسارے کا شکار ہیں۔ ہمارے معاشرے، خاندان اور قومی اداروں میں اس خسارے کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ معاشرہ کس تیزی سے تنزلی کا شکار ہے۔ اگر اب بھی ہم نے آنکھیں نہ کھولیں تو ہم اپنی شناخت کھو دیں گے اور یہ بدترین خسارہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔