- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
- پی آئی اے نجکاری، جلد عالمی مارکیٹ میں اشتہار شائع ہونگے
آف شور بینکوں میں پڑے 7.5 ارب ڈالر کے حصول میں حکومتی دلچسپی ختم
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آف شور بینک اکاؤنٹس میں پڑے ہوئے ساڑھے 7 ارب ڈالر کے حصول کی کوششیں ترک کردی ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اسد عمر کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس میں ایف بی آر کے ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل ٹیکسز محمد اشفاق نے بتایا کہ جنوری کے بعد سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے آف شور بینک اکاؤنٹس رکھنے والے افراد کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا۔
او ای سی ڈی نے پاکستانیوں کے ایک لاکھ 52 ہزار بینک اکاؤنٹس کی معلومات گذشتہ برس ستمبر میں ٹیکس حکام کو مہیا کی تھیں۔ ایف بی آر نے صرف ان بینک اکاؤنٹس کے سلسلے میں کوئی اقدام کیا جن میں رکھی ہوئی رقم کی مالیت 5 لاکھ ڈالر سے زائد تھی۔
ڈائریکٹر جنرل کے مطابق ایک اکاؤنٹ میں زیادہ سے زیادہ رقم 137 ملین ڈالر ( 22 ارب روپے ) تھی۔ محمد اشفاق کے مطابق ان اکاؤنٹس میں 7.5 ارب ڈالر کی خطیر رقم موجود ہے۔ ساڑھے 4 ارب ڈالر صرف 650 لوگوں کی ملکیت میں ہیں۔
ڈی جی نے بتایا کہ ایف بی آر 650 میں سے تقریباً 325 لوگوں کی نشاندہی کرسکا جنھیں نوٹس ارسال کیے گئے، مگر ان میں سے 60 فیصد سے زیادہ افراد پہلے ہی گذشتہ ایمنسٹی اسکیم سے استفادہ کرچکے تھے۔
محمد اشفاق نے یہ کہہ کر کمیٹی کو حیران کردیا کہ جب حکومت نے جنوری میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کرنے کی باتیں شروع کیں تو ہم نے نوٹسز کا اجرا روک دیا۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ایف بی آر ابتدائی طور پر ٹیکس کے مقاصد سے ان لوگوں کی آمدنی کا اندازہ بھی نہیں لگاسکا۔
اس موقع پر سابق وزیرخزانہ اور قائمہ کمیٹی کے چیئرمین اسد عمر نے کہا کہ بنیادی آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے او ای سی ڈی کی ایکسرسائز روک دی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔