انا اور خود پسندی آپ کو برباد کر دے گی

افشاں شاہد  منگل 9 جولائی 2019
انا اورخود داری تو یہ ہے کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا جائے،اپنے قوتِ بازو سے اپنے حالات کو بدلنے کی سعی کی جائے۔ فوٹو: فائل

انا اورخود داری تو یہ ہے کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا جائے،اپنے قوتِ بازو سے اپنے حالات کو بدلنے کی سعی کی جائے۔ فوٹو: فائل

’’میری بھانجی کے علاوہ کوئی اور لڑکی اس گھر کی بہو نہیں بن سکتی اور اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تمہیں جائیداد سے عاق کردوں گا۔‘‘

’’ میں اور معافی۔۔۔ ناممکن۔ وہ مجھ سے چھوٹی ہے، جب تک وہ مجھ سے معافی نہیں مانگے گی میں اس کی دہلیز پر قدم نہیں رکھوں گی۔‘‘

ہماری ضد اور انا میں رشتے فنا ہو جاتے ہیں۔ گھمنڈ، غرور، اکڑ اور صرف اپنی ذات کو اہم جاننا، اپنے فیصلوں کو بہترین تصور کرنا اور دوسروں کی رائے کو اہمیت نہ دینا ایک ایسی عادت ہے جس میں اکثر گھر کے گھر برباد ہو جاتے ہیں۔

انا اور خود داری تو یہ ہے کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا جائے، اپنے قوتِ بازو سے اپنے حالات کو بدلنے کی سعی کی جائے، ناجائز اور غلط بات تسلیم نہ کی جائے اور انکار کردیا جائے، چاہے پھر کچھ ہو جائے۔ لیکن ہمارے ہاں انا کو کچھ اور ہی معنی دیے جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہے، جھوٹی انا کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوا ہے، چھوٹا ہو یا بڑا کوئی بھی عاجزی سے کام لینے، جھکنے کے لیے تیار نہیں اور اپنی غلطی تسلیم کرنا، رجوع کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔

سگے بھائی بہن چھوٹی سی بات کو ناک کا مسئلہ بنا کر ایک دوسرے سے قطع تعلق کر لیتے ہیں اور اسی حالت میں جب کوئی ایک اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے تو پھر صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ انسان اگر تھوڑی سی سمجھ داری اور برد باری کا مظاہرہ کرے، اپنی غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی جھک جائے تو رشتوں کو بچایا جاسکتا ہے۔ جھگڑنے بعد شوہر یہ بھول جائے کہ غلطی کس نے کی تھی اور بیوی شوہر کے تلخ رویے کو نظرانداز کر کے اس سے بات چیت ترک کرنے کے بجائے مسکرا کر بات کرے تو انا کا زہر رشتوں کو آلود نہیں کرسکتا۔

لیکن یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ ایک معمولی سی بات کو ہم اپنی اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور معافی تلافی تو دور کی بات ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ دونوں ایک دوسرے سے پہل کرنے کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ ان کے لیے گویا شکست و فتح کا معاملہ ہوتا ہے۔ جھکنا اور انکساری سے کام لینا بڑے ظرف کی بات ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ جھگڑے کے بعد جیسے جیسے وقت گزرتا ہے دونوں کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں اور ضد اور انا جیت جاتی ہے۔

جب انسان ضد اور انا کا قیدی بن جاتا ہے تو اپنے آپ کو برتر اور دوسروں کو خود سے کم تر سمجھنے لگتا ہے۔ وہ خود غرض بن کر سوچنے لگتا ہے۔ اس کی نظر میں کسی شخص کی کوئی وقعت نہیں رہتی اور یوں وہ بھری دنیا میں رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی اپنی ضد کی وجہ سے تنہا ہو جاتا ہے۔

انسان کے مزاج، عادات، رویوں اور جذبات میں توازن نہ رہے تو وہ سرکش، خود سر اور انا پسند ہو جاتا ہے۔ وہ اس ضد اور انا کو قابو میں نہیں رکھ پاتا اور یہ اس پر حاوی ہو کر بربادی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اگر چند باتوں پر عمل کیا جائے تو جھوٹی انا اور بے جا ضد کبھی انسان کو زیر نہیں کرسکتی۔

سب سے پہلے تو یہ ماننا چاہیے کہ تمام ظاہری خوب صورتی، شان و شوکت اور ایسی دیگر خوبیاں اور اختیارات جو کسی کو دوسرے انسان کے مقابلے میں حاصل ہیں، یہ سب قدرت کی عطا ہیں، اور یہ اس کی آزمائش و امتحان ہے۔ قدرت کو جانے کیا منظور ہو۔ جس نے یہ سب دیا ہے وہ جب چاہے اسے واپس لے سکتا ہے۔ جب آپ یہ طرزِ فکر اپنائیں گے تو غرور و تکبر کو آپ کے اندر پنپنے کا موقع نہیں ملے گا اور انا و خود پسندی پروان نہیں چڑھے گی۔

انسان یہ سوچے کہ وہ بھی غلطی کرسکتا ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ اس سے کوئی خطا سر زد نہ ہو۔ یہ ایسی مثبت سوچ ہے جو ہمیں اپنی غلطی پر اڑنے اور خود کو عقلِ کُل سمجھنے سے محفوظ رکھتی ہے اور کسی بھی موقع پر ہم خود کو ہی صحیح ثابت کرنے میں ہلکان ہونے کے بجائے اپنی کم زوری اور غلطی کا اعتراف کر کے آسانی سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اپنی غلطی تسلیم کر کے معافی مانگنا اور جھک جانا انسان کو کم زور نہیں بلکہ مضبوط بناتا ہے۔ جو شاخ جتنی پھل دار ہوتی ہے اتنی ہی جُھکی ہوئی ہوتی ہے۔

زندگی کے کسی بھی موڑ پر، کسی بھی تعلق اور رشتے کو انا کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔ معاملہ فہم اور خوش مزاج بنیں، تلخی اور رنجش کے موقع پر خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ زندگی میں بہت سی باتوں کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ زوجین آپس میں، اپنی اولاد کے حوالے سے، نوجوان اپنے بڑوں سے، عزیز و اقارب اور دوست ایک دوسرے کے لیے نرمی برتیں۔ کسی موقع پر ضد، انا اور برتری کے احساس سے مغلوب ہو کر دور ہونے کے بجائے اپنی غلطی تسلیم کرلیں اور اس پر شرمندہ ہوں تو رشتے ناتوں کی خوب صورتی بڑھ جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔