سچّائی کی خیر و برکت

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  جمعـء 12 جولائی 2019
ایک جھوٹ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے متعدد جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، لہٰذا ہم صرف سچ بات ہی کہیں۔ فوٹو : فائل

ایک جھوٹ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے متعدد جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، لہٰذا ہم صرف سچ بات ہی کہیں۔ فوٹو : فائل

سچائی ایسی صفت ہے جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یک ساں طور پر تسلیم کی گئی ہے۔ اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی۔ اسی لیے شریعت اسلامی میں اس کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے، اور سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے۔

محسن انسانیت رسول اکرم ﷺ نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا۔ آپؐ ہمیشہ سچ بولتے تھے، حتی کہ آپؐ کی جان کے دشمن بھی آپ ﷺ کو صادق و امین کہتے اور سمجھتے تھے۔

تمام انبیائے کرامؑ نے بھی ہمیشہ سچ بولنے کی تاکید فرمائی۔ حضرت ابراہیمؑ کے متعلق فرمان الٰہی کا مفہوم ہے: ’’ اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو، بے شک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے۔‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں قرآن کریم (سورۃ یوسف) میں ہے، مفہوم : ’’(اصل قصہ یہ ہے کہ) میں (زلیخا) نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور وہ (حضرت یوسفؑ) بے شک سچّے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بھی پوری انسانیت کو سچ بولنے کی تعلیم دی ہے۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔‘‘ (سورۃ التوبہ) اسی طرح فرمان الٰہی کا مفہوم ہے: ’’ (خدا فرمائے گا کہ) آج وہ دن ہے کہ سچ بولنے والوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی۔‘‘ (سورۃ المائدہ) اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے، مفہوم : ’’ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتے جو اسراف کرنے والے ہیں اور جھوٹے ہیں۔‘‘ (سورۃ المؤمن ) چوں کہ جھوٹ کے نتائج سخت مہلک اور خطرناک ہیں، اور جھوٹ بولنے والے کے ساتھ دوسرے بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہتے، اسی لیے آپ ﷺ نے جھوٹ بولنے والوں کے لیے سخت وعیدیں بیان فرمائیں ہیں۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ’’ سچائی کو لازم پکڑو کیوں کہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنّت کی طرف لے جاتی ہے، اور آدمی یک ساں طور پر سچ کہتا ہے اور سچائی کی کوشش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کی نظر میں اس کا نام سچّوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچے رہو اس لیے کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کی راہ بتاتا ہے، اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور اسی کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک اس کا شمار جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)

سچ بولنے کی کیسی عظیم اہمیت ہے کہ انسان اپنی سچائی کے ذریعے جنّت میں داخل ہوسکتا ہے، جو ہر مسلم کی پہلی اور آخری خواہش ہے۔ جب کہ جھوٹ بولنے کی وجہ سے انسان کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں جلنا ہوگا، اگر موت سے قبل حقیقی توبہ نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ دوزخ سے بچ جائے۔ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے نبی اکرم ﷺ نے جنّت کے حصول اور جہنم سے نجات کے لیے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے دیگر احکام کو بجا لاتے ہوئے سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم کرلیں۔

حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ فروخت کرنے والے اور خریدار کو اختیار ہے جب تک وہ مجلس سے جدا نہ ہوں۔ اگر دونوں نے حقیقت کو نہ چھپایا اور سچ بولا تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ڈال دی جائے گی اور اگر حقیقت کو چھپایا اور جھوٹ بولا تو بیع کی برکت ختم کردی جائے گی۔‘‘ (بخاری و مسلم)

دور حاضر میں ہم نے تجارت کو خالص دنیاداری کا کام سمجھ لیا ہے، اس لیے ہمارا یہ ذہن بن گیا ہے کہ جھوٹ اور دھوکا دہی کے بغیر اب تجارت کام یاب نہیں ہوسکتی۔ حالاں کہ اگر تجارت اللہ کے خوف کے ساتھ کی جائے اور کسی کو دھوکا دینے کی غرض سے نہیں بل کہ سچائی اور امانت داری کو اپنا معمول بنا کر کی جائے اور ناجائز کاموں سے پرہیز کیا جائے تو یہی تجارت عبادت بنے گی اور حلال تجارت کے ذریعے حاصل شدہ رقم کو اپنے اور گھر والوں کے اوپر خرچ کرنے پر اجر عظیم ملے گا اور اس کی وجہ سے ہمیں آخرت میں کام یابی حاصل ہوگی۔ جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’جو تاجر سچا اور امانت دار ہو، وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘ یہ حدیث مختلف کتب حدیث میں موجود ہے، اس کی سند پر بعض علماء نے کلام کیا ہے، لیکن یہ حدیث اچھے معنی اور مفہوم اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ لہٰذا ہمیں کاروبار میں بھی کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔

آخری حدیث میں بیان کیا گیا کہ خرید و فروخت کرنے والوں کو مجلس سے جدا ہونے سے قبل اپنے فیصلے سے رجوع کرنے یعنی خرید و فروخت کو منسوخ کرنے کا حق رہتا ہے۔ لیکن مجلس سے جدا ہونے کے بعد خرید و فروخت مکمل ہوجاتی ہے، اب بیچنے والے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں اس چیز کو نہیں بیچنا چاہتا یا خریدار کہے کہ میں اس چیز کو خریدنا نہیں چاہتا۔ ہاں دونوں اپنی رضامندی سے اس معاہدے کو ختم کرسکتے ہیں۔ اگر بیچنے والا چیز کے قابل ذکر عیوب کو چھپا کر کوئی چیز فروخت کرے یا خریدنے والا دھوکا دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو خرید و فروخت میں کیسے برکت ہوسکتی ہے؟ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم خرید و فروخت میں بھی جھوٹ کا سہارا نہ لیں بل کہ ہمیشہ سچ ہی بولیں۔ ہمارے اسلاف نے ہمیشہ سچ بول کر تجارت کی، اس لیے ہر میدان میں کام یاب ہوئے۔حضرت حسن بن علیؓ سے روایت ہے کہ مجھے حضور اکرم ﷺ کی یہ باتیں یاد ہیں: ’’ جو بات شک میں مبتلا کرے اس کو چھوڑ دو اور اس کو اختیار کر جو شک میں نہ ڈالے۔ سچائی اطمینان ہے اور جُھوٹ شک ہے۔‘‘ (ترمذی) یعنی جس کے حلال ہونے میں شک ہو اس کو چھوڑ دو اور اس کو اختیار کرو جس میں کوئی شک و شبہہ نہ ہو۔ ہمیں جھوٹ کا سہارا نہیں لینا چاہیے، صرف سچ ہی بولنا چاہیے۔

ایک جھوٹ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے متعدد جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، لہٰذا ہم صرف سچ بات ہی کہیں۔ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے، اگر ہم نے کبھی جھوٹ بولا ہے تو اللہ تعالیٰ سے پہلی فرصت میں معافی مانگیں۔ کیوں کہ کبیرہ گناہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے مستقل توبہ ضروری ہے۔ بعض مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے مثلاً میاں بیوی میں شدید اختلاف ہوگیا ہے، اور جھوٹ بولنے کی وجہ سے صلح ہوسکتی ہے تو بہ درجہ مجبوری اس کی اجازت ہے، لیکن جھوٹ بولنے کی عادت بنانا یا کسی شخص کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے اور اس کے معاشرے میں بڑے نقصانات ہیں۔

اے اللہ! ہمیں سچ بولنے کی توفیق عطا فرما اور اس کے ثمرات سے مالا مال فرما، جھوٹ اور اس کے مہلک اثرات سے ہمیشہ کے لیے ہمیں محفوظ فرما۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔