اپوزیشن کی خواہش

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 18 جولائی 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا کے ہر جمہوری ملک میں حکمران جماعت کے ساتھ اپوزیشن بھی ہوتی ہے، جس کا مقصد حکمران جماعت کی کمزوریوں کو اجاگرکرکے اسے اصلاح کے لیے مجبورکرنا ہوتا ہے۔ یہ چیک اینڈ بیلنس کا ایک سسٹم ہوتا ہے جس کا مقصد عوام کے مسائل کے حل کے لیے راہ ہموار کرنا ہوتا ہے اور اپوزیشن کا رویہ حکومت کے ساتھ ناقدانہ ہوتا ہے، دشمنانہ نہیں ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے پسماندہ ملکوں میں یہ کلچر موجود نہیں، یہاں اپوزیشن کا رویہ ناقدانہ نہیں دشمنانہ ہوتا ہے۔

اس حوالے سے دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ترقی پسند ملکوں میں کرپشن کی بیماری یا تو ہوتی نہیں یا بہت کم ہوتی ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کرپشن پسماندہ ملکوں میں عام مرض کی طرح موجود ہوتی ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم پاکستان پر نظر ڈالیں تو بہت مایوسی ہوتی ہے۔

سابقہ حکومتوں کے دوران بھی یہ بیماریاں تھیں لیکن دشمنی کی سیاست نہیں تھی خاص طور پر 2008 سے 2018 تک بڑی حد تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مثالی تعاون کی فضا برقرار رہی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ حکمران اور اپوزیشن دونوں کا تعلق اشرافیہ سے تھا اور دونوں کا مشترکہ مقصد کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنا تھا، اس مشترکہ مقصد ہی کے لیے دونوں جماعتوں نے غیر علانیہ طور پر طے کر رکھا تھا کہ اقتدار باری باری سے دونوں جماعتوں کے ہاتھوں میں آتا رہے۔ یہ کھیل عشروں تک چل سکتا تھا لیکن 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف نے اس کھیل میں کھنڈت ڈال دی۔ 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کی کامیابی کی وجہ سے باری باری کا کھیل ڈسٹرب ہوگیا۔

پچھلے دس برسوں میں سیاست اس قدر پر امن رہی تھی کہ اس پرامن اور تعاون پر مبنی سیاست ہی کا کرشمہ تھا کہ پاکستان کی سیاست میں کسی جماعت نے اپنی آئینی مدت یعنی پانچ سال امن شانتی سے پورے کیے۔ اس مثالی تعاون کی تعریف کی جانی چاہیے۔ لیکن 2018 کے بعد جب تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی تو حکومت اور اپوزیشن کا مثالی تعاون پارہ پارہ ہوگیا اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعاون کے بجائے دشمنی کا کلچر اس طرح ابھرا کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔

پہلے تو فرق صرف طبقاتی تھا لیکن جب موجودہ حکومت نے سابقہ باری باری والوں کے خلاف احتساب کا ڈنڈا اٹھایا تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قبائلی دشمنی جیسا کلچر ابھر کر آیا اور سابقہ حکومتوں کے اکابرین کے خلاف نیب نے عدالتوں میں ریفرنس داخل کرنا شروع کیا۔ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو سزا ہوگئی اور وہ اڈیالہ جیل میں قید کردیے گئے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف جیل میں ہیں ان کے دونوں صاحبزادے بیرون ملک ہیں، صاحبزادی مریم کی بھی طلبی ہوگئی ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کٹر قبائلی دشمنی کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری دیسی جمہوریت کی ایک خوبی یہ ہے کہ اشرافیہ جب اقتدار میں ہوتی ہے تو اتحادیوں کی بھی پو بارہ ہوتی ہے۔ جب اقتدار اشرافیہ کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے تو اتحادی بے روزگار ہوجاتے ہیں اور اشرافیہ کی اقتدار کی لڑائی میں دل و جان سے شریک ہوجاتے ہیں۔ یوں اپوزیشن اس قدر تگڑی ہوجاتی ہے کہ حکومت کو تگنی کا ناچ نچانے لگ جاتی ہے۔ ہر سیاسی بے روزگار اتحادی دل و جان سے اشرافیہ کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے۔

اپوزیشن نے سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی ہے اور حاصل بزنجو کو اپنا امیدوار نامزد کردیا ہے۔ حاصل بزنجو ہمارے سابق معروف سیاستدان غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے ہیں۔ غوث بخش بزنجو ماضی کے ان سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جو دولت کو جوتے کی نوک پر رکھتے تھے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے اور دولت ہی سیاستدانوں کا دین و ایمان بن گئی ہے۔ ہاں تو بات چل رہی تھی سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف۔ ہماری اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کی اگر یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو اپوزیشن مونچھوں پر تاؤ دے سکتی ہے۔ یہ نمبر گیم ہے جو محترم ارکان کے لیے اچھا کمائی کا موقع فراہم کرتی ہے اسے ہم سرمایہ دارانہ نظام کی لاٹری بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہماری اپوزیشن پہلے ہی سے طاقتور ہے اگر اس کی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو اپوزیشن بھولو پہلوان جیسی طاقتور بن جائے گی۔

ہمارے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ’’خلائی مخلوق ‘‘کو اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ ان کی سیاسی تربیت اسی خلائی مخلوق کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوٹ مارکے کھیل میں جب حکمران بہت آگے نکل جاتے ہیں تو پھر کسی نہ کسی خلائی مخلوق کو بھی آگے آنا پڑتا ہے۔ ہماری اپوزیشن میں ’’اتحادی‘‘ اس قدر فعال ہیں کہ ان کا ایک پیر زمین پر ہوتا ہے تو دوسرا آسمان پر، اور دولت کی سیڑھی جب میسر آجاتی ہے تو دونوں پیر آسمان پر ہوجاتے ہیں۔ عمران خان ایک مشہور کرکٹر رہے ہیں اور وہ بھی بالر وکٹیں اڑانے کے بڑے ماہر ہیں۔ ایک بڑی وکٹ لے چکے ہیں دوسری بڑی وکٹ لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔

ہماری اپوزیشن انتہائی تجربہ کار ہے وہ جانتی ہے کہ بہت ساری سیاسی جنگیں صرف پروپیگنڈے سے جیتی جاتی ہیں سو وہ اس محاذ پر ایسے ایسے پروپیگنڈے بازوں کو لے آتی ہے کہ آدھی جنگ تو وہ ان پروپیگنڈا بازوں کی مہارت سے جیت چکی ہے اور امید ہے کہ آدھی جنگ وہ اتحادیوں کی مہارت سے جیت سکتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ملک پر 24 ہزار ارب قرضہ چڑھادیا ہے۔ جب ’’ترقیاتی کاموں‘‘ کی بھرمار ہوگی تو 24 ہزار ارب کیا 24 ہزار کھرب قرضہ بھی چڑھ سکتا ہے۔

جانے والوں نے ملک کو معاشی تباہی کی معراج پر کھڑا کردیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ڈالر جو سو روپے کا ہوتا تھا اب ایک سو بہتر کا ہوگیا ہے، سونا جو پچاس ہزار کا ملتا تھا اب 73 ہزار روپے کا تولہ ہوگیا ہے، سبزی جو 20 روپے کلو ملتی تھی اب سو روپے کلو مل رہی ہے، عوام سخت حیران بھی ہیں پریشان بھی۔ بدنام موجودہ حکومت ہو رہی ہے وہ تو خدا بھلا کرے چین، کویت، قطر وغیرہ کا کہ انھوں نے کپتان کے اس آڑے وقت میں کھڑے ہوکر ایسا سہارا دیا کہ گرتی دیوار کھڑی ہوگئی۔

بھائی انکل سام نے بھی کپتان کو دورے کی دعوت دی ہے ہمارا کالم شایع ہونے تک شاید کپتان امریکا پہنچ چکے ہوں ، اس کے بعد روس کے دورے کی باری ہے۔ ان دوروں میں امریکا، روس کپتان کی کوئی مالی مدد کریں نہ کریں اخلاقی مدد اتنی ہوگئی ہے کہ کپتان کا سر اونچا ہوگیا ہے۔ اور عوام کے نزدیک کپتان اور زیادہ معتبر ہوگیا ہے۔ اپوزیشن جتنا چاہے زور لگا لے کپتان کی حکومت کو گرانا اتنا آسان نہیں۔ میاں صاحب بار بار خلائی مخلوق کا نام لیتے ہیں کیا خلائی مخلوق کپتان کی حکومت کو گرنے دے گی 24ہزار ارب کا حساب دیے بغیر بات بنتی نظر نہیں آتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔