لیاری میں مسیحائوں کے نام

نادر شاہ عادل  جمعرات 18 جولائی 2019

سندھ گورنمنٹ لیاری جنرل اسپتال سے ہمارا سماجی رومانس چار عشروں پر محیط ہے۔ جب بھٹوصاحب نے لیاری ڈگری کالج اور لیاری جنرل اسپتال کے منصوبوں کی منظوری دی تو اس وقت لیاری کی نئی نسل سیاست کے میدان خار زار میں اتری ہوئی تھی، خالد اخترکا ناول ’’چاکیواڑہ میں وصال ‘‘ اس تاریخی انقلاب جنکشن کا ایک ادبی حوالہ تھا، لیاری کے بعض سیاسی مکاتب فکر جب کہ بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا انداز نظر پیپلز پارٹی کی نظریاتی ساخت سے جداگانہ تھا۔

پی پی مخالف سیاسی اور جمہوری قوتوں کا کہنا تھا کہ لیاری ڈگری کالج اور جنرل اسپتال کا قیام ان کی سیاسی اور مزاحمانہ جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ بہرکیف ہم اس لیے اس بحث کا حصہ نہیں بن سکتے کہ ان دنوں ہم ’’طفل مکتب ‘‘تھے اور سیاسی جدوجہد سے الگ تھلگ تھے، ہماری دنیا فٹ بال تک تھی اور وہ گول تھی، ہاں البتہ اتنا یاد ہے کہ ہم ماضی کے جس بے درودیوار ’’گنجی گراؤنڈ‘‘ میں فٹ بال کھیلا کرتے تھے وہ ارتقائے زمانہ سے ماری پور روڈ پر آج پیپلز اسپورٹس کمپلیکس کی شاندار عمارت کے طور پر رینجرز کا ریجنل ہیڈ کوارٹر ہے جہاں بوقت ضرورت قومی اسپورٹس ایونٹ کا انعقاد ہوتا ہے۔

اسی گنجی گراؤنڈ نے لیاری کے توسط سے ملک کو نامور فٹبالر دیے۔گراؤنڈ سے ملحقہ علاقہ غریبوں کی آبادی تھی ،اکثر ان جھونپڑ پٹیوں میں سردی کے موسم میں آگ لگ جاتی اور بے منزل مکینوں کا کل ’’اثاثہ ‘‘ خاکستر ہو جاتا۔ ایوبی آمریت میں گنجی گراؤنڈ سمیت بہار کالونی اور آگرہ تاج کالونی کے انہدام اور رہائشیوں کی نقل مکانی کا فیصلہ ہوا اور نئی آبادیاں قائم ہوئی۔

اسی طرح رانگیواڑہ میں چمڑہ سازی کے کارخانے، مویشیوں کی آلائشوں، انتڑیوں کے متعفن گودام شفٹ ہوئے، چاکیواڑہ، رانگیواڑہ اورکلری سے ملحق علاقے زندگی کی سہولتوں سے جزوی طور پر فیضیاب ہوئے تاہم لیاری ڈگری کالج اور لیاری جنرل اسپتال درحقیقت جن تدریسی اور معالجاتی مقاصد کے تحت قائم ہوئے ان کی تکمیل میں پیچیدہ انتظامی مسائل حائل آئے، ڈگری کالج لیاری سے کاٹ کر صدر ٹاؤن کا حصہ بنایا گیا جب کہ آج لیاری جنرل اسپتال کو مسیحائی کے ایک بڑے منصوبہ کا حصہ بننا ہے اور اسے ایسے عیسیٰ نفس انسان دوست معالجوں ، پیرا میڈیکل اسٹاف ، سماجی رہنماؤں ، مخیر حضرات اور بے لوث و تعلیم یافتہ ہنرمندوں اور مقامی کارکنون کی ضرورت ہے جو سول اور جناح کی موجودگی میں لیاری جنرل اسپتال کو افرادی اور انسانی وسائل سے لیس سینٹر آف ایکسی لینس بنانے کا وعدہ پورا کر دکھائیں۔

آئیے، اسی حوالہ سے لیاری جنرل اسپتال کی افادیت اور مقصدیت کو سامنے رکھتے ہوئے بعض تجربات و واقعات کا ذکرکرتے ہیں۔ مسیحائی تو ملک گیر ایشو ہے،ہاں ایک بات یاد رہے کہ جب لیاری کا ذکر آتا ہے تو ملکی سیاست میں ’’بنتی نہیں ہے ساغر ومینا کہے بغیر‘‘ کی دلچسپ مگر غیر حقیقی بیانیے کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ لیاری کا المیہ اس کی تاریخی اور سیاسی نیک بختی سے مربوط ہے، یہ واحد انسانی آبادی ہے جس کو منی پاکستان کی لغت میں بندہ نواز بستی قراردیا گیا تھا، کیونکہ اس کے حفاظتی پروںمیں پاکستان کی تقریباً تمام قومیتوں آبادیوں، اکائیوںاور نسلی وفکری گروہوں نے پناہ لی ہے، اسے میڈیا میں ایک ہشت پا بلا کی حیثیت دی گئی، منشیات کے جہنم اور گینگ وار کی سیاسی ستم گری کا ٹیگ اس کے جبین سیاست و سماج  پر آویزاں ہے۔ مگر جس چیز نے لیاری کی شناخت مستحکم رکھی وہ عوام کی آفاق گیر انسان دوستی ہے، بے پایاں محبت ، خیر اندیشی، دریا دلی اور زندگی کی سختیوں کو ہسنتے گاتے روتے جھیلنے کی روایت کو قائم رکھنا ہے۔

ایک صحافی دوست نے لیاری اسپتال میں کیا خوبصور ت بات کہی کہ جب بھی کراچی کو خطے کے ہمسائیگی نے درد والم کے تحفے دیے لیاری نے تن ہمہ داغ داغ شد کے باوجود دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست کی مثال زندہ رکھی ہے۔

اسی بہانے مسیحائی کا در کھولتے ہیں۔لیاری جنرل اسپتال کے ہر دلعزیز یورالوجی شعبہ کے سربراہ پروفیسر شاہ نواز راجپڑ سے ملاقات ہوتی ہے،گذشتہ پانچ سال سے پروسٹیٹ اور پتھری کے مرض مشترک نے نہ ماہر پینل ڈاکٹروں سے رجوع کرنے کا سلیقہ سکھایا اور نہ دیسی جڑی بوٹیوں سے افاقہ ہوا، ایک دن لیاری کی باکسنگ ، سماجی ، سیاسی شخصیت عابد بروہی نے اصرار کیا اور برحق کیا کہ شاہ جی اپنے علاقے کے مدر انسٹی ٹیوشن میں آئیے، لیاری اسپتال ’’درد منت کش دوا نہ ہوا ‘‘ کا سارا راز اگل دے گا۔ وہ  ضد کرتے ہوئے کہنے لگے ’’ پیرکے دن میں لیاری اسپتال کے مین گیٹ پر آپ کا انتظار کرونگا۔ عابد بروہی کو اللہ تعالی نے درد مند دل دیا ہے، وہ کسی خاص موقع کے لیے نہیں، وہ بلوچ اتحاد تحریک کے روح رواں ہیں۔

اس تحریک کو انور بھائی جان اور رفقا نے اپنی سیاسی اور سماجی جدوجہد سے سنوارا ہے، چنانچہ میں لیاری جنرل اسپتال کے بند باب کے کھلنے تک علاج کے مختلف پروسیس سے گزرتا رہا، نئی چیزیں  مشاہدہ میں آئیں، سرجن شاہ نواز اور ان کی پوری ٹیم کا دست شفا کام آیا،انچارج آپریشن تھیٹر سردار بادشاہ، مسعود بلوچ اور اشتیاق، ندیم امام بلوچ مینٹنینس انچارج ،مولا غنی ، سید غلام مصطفیٰ شاہ ایڈمنسٹریشن آفیسر این آئی سی وی ڈی، طارق بلوچ، لال محمد وارڈ بوائے، اعظم بلوچ اور جمیل لیب بوائے۔ حقیقت میں صرف یورالوجی شعبہ نہیں ہر شعبے میں مریضوں کی بھیڑ ہے، خلق خدا مسیحائی کی تلاش میں ہے، لاکھوں انسانوں کی اس آبادی میں ایک سرکاری اسپتال کتنا بوجھ برداشت کرسکتا ہے، میری نظریں چالیس برس پہلے کے لیاری اسپتال کی شکستہ حالت ، علاقے کی پسماندگی، غربت، بیروزگاری، ماحولیات کی وحشت اور عوام کے سیاسی شعورکی قدروقیمت کی بھول بھلیوں میں کھوگئیں۔ والد محترم کی نظم کے چند بول یاد آئے۔

یہ بستی جو لیڈر اگلتی رہی ہے

جفا کے جہنم میں جلتی رہی ہے

جہالت اور افلاس انعام پاکر

جرائم کے سانچوں میں ڈھلتی رہی ہے

مگر پھر بھی ہے راہ حق کی پجاری

یہ لاکھوں غریبوں کی بستی لیاری

حقیقت یہ ہے کہ چند ہی روز ان مریضوں اور مسیحاؤں میں رہتے ہوئے میں اپنا غم بھول گیا ، ایسی چاہت ایسی دستگیری جو یہاں موجود پیرا میڈیکل اسٹاف کی لیڈیز اور میل ورکرز نے کی وہ وہم وگمان میں نہ تھی، رش کا وہ عالم کہ دل کا وارڈ عمر رسیدہ لوگوں سے بھرا ہوا ، مسیحا سب ہمہ تن گوش، جمیل شاہ جیسے انتھک کارکن کی تعریف میں بے شمار دلوں سے دعائیں نکلیں ، ادھر دیکھو تو لیاری کی نئی نسل ڈاکٹرز اپنے سینئر معالجین کی ہمرکابی میں مختلف وارڈوں میں ہرکیس کو انفرادی توجہ دے رہی ہیں،جن مسیحاؤں نے پروسٹیٹ اور پتھری کا لیزر سے علاج کیا وہ حس مزاح میں لاجواب نکلے، کہنے لگے ’’ سر آپ توکہتے  ہیں ایک اسٹون ہے ، یہاں تو سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے‘‘ ڈاکٹر ارشد صاحب نے آپریشن تھیٹر میں مسکراتے ہوئے بلیغ پیرائے میں گویا ہوئے کہ صحافی خطرناک ہوگئے ہیں۔

ان کو بتایا گیا کہ مسحاؤں کے آگے کسی کا بس نہیں چلتا، اہل صحافت کی تمنا ہے کہ لیاری میں مسیحائی کا نیا دور شروع ہو، پروفیسر شاہ نواز ، بے نظیر میڈیکل کالج کی  پرنسپل پروفیسر انعم رحمن، ایڈمن آفیسر عذیر رستم اپنے قابل قدرمشن میں کامیاب ہوں، لیاری اسپتال کا شجر سایہ دار ماضی کے کئی مسیحاؤں کے ہاتھوں کا لمس آشنا ہے، اس اسپتال سے وابستہ لیاری کے ممتاز دانشور یوسف نسکندی کے فرزند سے ملاقات ہوئی،  انصاری نے معلومات بہم پہنچائیں، ڈاکٹر ذاکر سے مل کر خوشی ہوئی، غنی نے ٹراما سینٹر اور ایشیا کی زیر تعمیر عمارت کے حسن اور منفرد تعمیراتی ڈیزائن کی طرف توجہ دلائی۔ ماضی کے ممتاز ٹریڈ یونین لیڈر عثمان بلوچ اور سینئر صحافیوں نے عیادت کی۔نجی چینل کے نمایندہ حارث سے ملا ،اس نوجوان کا میڈیا سے جنون حیران کن ہے۔ سول اسپتال سے عیادت کے لیے آئے ہوئے مراد بلوچ نے انکشاف کیا کہ وہ لیاری کے لیے پوری زندگی مصروف عمل رہے،انھوں نے معصومیت کے ساتھ کہا کہ ’’ آپ مجھے لیاری کا چھوٹا سا ستار ایدھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹرز کی دنیا میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ اس مسیحا کے مطب میں قدم نہ رکھیں جس کے سرکاری دفترکے پودے خشک اور مردہ ہوچکے ہیں۔ کہتے ہیں ڈاکٹرنوع انسانی کی کمزوریوں ، وکیل معاشرتی برائیوں اور مذہبی رہنما حماقتوں پر نظر رکھتے ہیں، مگر ایک مریض کا کہنا تھا کہ جب میں نے اپنے مسیحا سے صاف کہہ دیا کہ آپ کی فیس دینے کی مجھ میں طاقت نہیں تو اس نے صرف میرا ایکسرے دیکھ لیا۔ میری روح نے انگڑائی لی۔ لیکن جس بات نے مجھے مجبور کردیا ہے وہ لیاری میں منشیات کے سرکاری اسپتال کا نہ ہونا ہے، جب کہ یہاں تو امریکا کی طرح ڈرگ انفورسمنٹ اتھارٹی قائم ہونی چاہیے تھی۔ منشیات اور لیاری کو ساتھ ساتھ نہیں چلنا چاہیے۔ لیاری کو منشیات اژدہے کی طرح کھائے جارہا ہے۔

میرا عمومی جائزہ لیاری اسپتال کی ملک گیر انسان دوستی اور خیر سگالی سے متعلق ہے۔ یہاں پاکستان کے کونے کونے سے مریض لائے جا رہے ہیں، لیاری کی سیاسی شناخت کروٹ لے رہی ہے، جرائم، بیروزگاری ، غربت اور بیماریوں سے پاک معاشرہ لیاری والوں کا بھی حق ہے، یقین کرنا چاہیے کہ سندھ حکومت اپنی ترجیحات میں لیاری میڈیکل کالج اور جنرل اسپتال کی ضروریات کا خیال رکھے گی، اس علاقے کے لوگوں کی بھٹو خاندان اور جمہوریت سے کمٹمنٹ ایک بڑے سوال کی صورت سامنے آئی ہے، یہاں ایم این اے پی ٹی آئی کے شکور شاد ہیں اور سندھ حکومت پیپلز پارٹی کی ہے۔ ان دو انتہاؤں کے بیچ لیاری کے دواہم میڈیکل اداروں کا کردار دکھی انسانیت کے لیے شمع رہگذرکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔