ایوان بالا میں جیت کس کی

انیس باقر  جمعـء 19 جولائی 2019
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

آج سے پہلے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی ہوا کرتے تھے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کسی حد تک نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے متفقہ چیئرمین تھے۔ لیکن پانچ برس تک یہ اسٹوڈنٹس یونینوں کی بحالی کے لیے کوششیں کرنے کے باوجود قرارداد منظور نہ کروا سکے گوکہ یہ کوئی اتنا بڑا اور اہم مسئلہ نہ تھا۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے نام و نمود کے لوگوں کی حیثیت کیا ہے۔ یا یوں کہیے کہ سینیٹ کا چیئرمین سربراہ مملکت کا عندیہ لیے بغیر کوئی کام نہیں کرتا۔ جب کہ جو بھی سینیٹ کا چیئرمین منتخب ہوتا ہے یا موجودہ چیئرمین ہی برقرار رہ جاتا ہے تو اس کی سیاسی قوت کیا ہوگی۔ جب کہ متفقہ چیئرمین محض تقریروں سے لوگوں کو آسودہ کیا کرتے تھے۔ سنتے ہیں کہ موجودہ مقابلہ تو بڑا سخت ہوگا۔ اس کے علاوہ خفیہ قوتیں اور زر کثیر بھی اپنی قوت کا مظاہرہ کرے گا۔ مسٹر سنجرانی تو کوئی پرانی سیاسی تاریخ نہیں رکھتے جب کہ بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے مدمقابل ایک بڑے مدبر سیاستدان غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے حاصل بزنجو ہیں۔

جو کہ پوری عمر بائیں بازو کی سیاست کرتے رہے۔ ان کی جوانی کے دوران جو لوگ قیادت کرتے رہے ان میں محترم غوث بخش بزنجو کے علاوہ خیر بخش مری، عطا اللہ مینگل، میر گل خان نصیر، حبیب جالب، اجمل خٹک جیسے بہادر اور غریبوں کے ہمدرد گزر رہے ہیں جب کہ حاصل بزنجو صاحب بھی ایسے ہی جانثاروں کی صف میں ہوا کرتے تھے مگر بدلتے وقت نے انھیں ایک سیاسی پارٹی کی فکری قیادت کو نظرانداز کرتے ہوئے زرداروں کی صفوں میں لاکر کھڑا کردیا۔ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ ان کے منہ سے نکلا ہوا جملہ کہ انھیں جہانگیر ترین کے جہاز سے ڈر لگتا ہے۔ گویا انھیں اس سواری میں مزہ نہیں آیا۔

مجھے وہ دن یاد ہے کہ جب ٹرام پٹہ لیاری پر نوجوان جمہوریت کے لیے مظاہرہ کرتے تھے اور ون یونٹ نا کھپے کے نعرے لگاتے تھے تو یہ بھی ہمارے ساتھیوں میں سے تھے۔ ان کے والد مرحوم بزنجو صاحب کا کیا کہنا کہ اگر 1973کا آئین متفقہ طور پر منظور کیا گیا اور اس کی تیاری میں یہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے معاونین میں سے تھے اور فوجی آمریت کے خلاف سپہ سالاروں میں سے تھے بلکہ بعض جید کامریڈ ان کو اپنا رہنما تصور کرتے تھے۔ اسی لیے جب نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں آیا تو کراچی کے اہل دانش اور ان شعرا نے بھی ان کی پارٹی کے فارم پُر کیے۔ مگر یہ تمام لوگ اب ان کے صاحبزادے حاصل بزنجو کے رابطے میں نہیں ہیں۔ یہ دانشور اب بھی نیشنل عوامی پارٹی کے خواب دیکھ رہے ہیں جس کو بھٹو صاحب نے کالعدم قرار دے دیا تھا اب یہ ایک قصہ پارینہ ہو گیا جو تاریخ کے کسی صفحے پر لکھا ہو گا (حیدر آباد ٹریبونل)

جب حاصل بزنجو صاحب سینیٹر بنے اور انھوں نے کراچی میں آرٹس کونسل سمیت کئی جگہ خطاب کیے تو ان کے انداز گفتگو میں عوامی رنگ تھا مگر رفتہ رفتہ قوس قزح کے یہ سب رنگ جاتے رہے۔ فقط (ن) لیگ کا علم لہراتا رہا۔ جو ان کی اصل انتخابی قوت ہے۔ عوام میں ان کی کیا قوت ہے جو پہلے خود کو ’’بنگلہ بندھو‘‘ سمجھتے تھے۔ قلم چھوڑ تحریک بھی اسی کی نقل تھی۔ (ن) لیگ کی یہ تحریک بھی نہایت بوسیدہ رہی۔ اسی لیے ان پر کریک ڈاؤن ہوا ورنہ عوامی تحریک اور عوام کے خدمت گار اس طرح بوسیدہ تحریکیں چلائیں اور عوام سے کٹ کے رہ جائیں، محض میڈیا کے آلہ کار بنے رہیں۔

ایسوں کو قوت بخشنا کیا معنی۔ درحقیقت یہ اپنی سیاسی قوت کو کم کرنے کا ایک قدم ہے ممکن ہے جس کے امکانات خفیف ترین ہیں کہ ’’ترینی ہوا باز‘‘ ان کا پھریرا لہرا سکیں۔ کیونکہ ہر ذی شعور جانتا ہے جس نے سیاست کی ایک سیڑھی بھی چڑھی ہو کہ موجودہ جمہوریت کس کرب و بے چینی سے آلودہ ہے پھر بھی کوشش کرنے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر شکست ہو بھی گئی تو لوگ سمجھیں گے کہ ’’مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا‘‘ اور شاید تاریخ نویس یہ رقم بھی کردیں۔

مگر اس سے (ن) لیگ کا وقار تو بڑھے گا۔ مگر حاصل بزنجو صاحب کی پارٹی کو کیا فوائد حاصل ہوں گے اس پر تبصرہ کرنا بے سود ہے۔ اس کا علم تو خود ان کی پارٹی کے لوگوں کو خصوصاً طاہر بزنجو کو خاصا علم ہوگا۔ لیکن بائیں بازو کی مختصر سی تنظیمیں یہ خواہش رکھتی ہیں کہ حاصل بزنجو صاحب اس انتخاب میں سبقت حاصل کر لیں اور طلبا کی انجمنوں کو بحال کرنے کی قرارداد پیش کرتے رہیں۔ اور ان پر عملدرآمد کرائیں۔ تاکہ نہ صرف طلبا بلکہ اساتذہ کی حرمت بحال کراسکیں۔

واضح رہے کہ پروفیسر انیتا غلام علی کی قیادت میں اساتذہ کی تنخواہوں اور طالب علموں کی فیسوں کے مسئلے پر جو احتجاج کیا گیا تھا اس میں اسٹوڈنٹس یونین کا واضح کردار موجود ہے۔ جس کا تذکرہ سر سید گرلز کالج کی پرنسپل سلمیٰ زمن نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ اس موقع پر یہ واضح رہے کہ اسٹوڈنٹس یونین پر بندش دوران مارشل لا لگائی جاتی ہے مگر گزشتہ تیس برس سے ایسا لگتا ہے کہ جمہوری حکومتیں اپنے مفاد کے لیے مارشل لا کے قانون کو تحفظ دیے ہوئے ہیں۔

بھارت جو ہمارا پڑوسی ملک ہے وہاں بھی اسٹوڈنٹس یونین بحال ہیں۔ اسی لیے دہلی یونیورسٹی میں کشمیر کی حمایت میں مظاہرے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہاں ہندوتوا کا راج نہیں ہے مگر افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی جمہوری حکومتوں نے اپنے مفادات کے لیے جمہور اور جمہوریت سے کھلی جنگ کر رکھی ہے۔ لہٰذا حاصل بزنجو صاحب جو جمہوریت کے چیمپئن کے طور پر انتخابی معرکے میں پیش پیش ہیں تو انھیں اس مسئلے پر تو اظہار خیال تو کرنا ہی ہوگا کیونکہ چہرے بدلنے سے حکومت کی آبیاری نہیں ہوتی۔ جمہوری حکومتیں اسٹوڈنٹس یونین اس لیے بحال نہیں کرانا چاہتی ہیں کیونکہ اسٹوڈنٹس یونین غربت اور امارت کے درمیان جو دیوار کھڑی ہے اس پہ ضرب لگاتی ہیں۔ یہ طلبا ہی ہیں جنھوں نے اکثر و بیشتر مزدور کسان موومنٹ کو بھی سپورٹ کیا ہے۔

ڈاکٹر رشید حسن خان، معراج محمد خان، فتح یاب علی خان، امیر حیدر کاظمی ان سب طلبا لیڈروں نے مارشل لا کے دور میں بھی مزدور کسان تحریکوں کو تقویت بخشی ہے۔ اور ایسے لوگ پیدا کیے ہیں جو عوامی جمہوریت کے قائل ہیں۔ پاکستان میں طلبا تحریک کو دبانے کے لیے قومی اسمبلی کے ممبران بھی متحد ہیں۔ اسی لیے ضیا الحق کا فرمان بڑی آن بان سے اسمبلی کی شان بنا ہوا ہے۔ کیونکہ اب اسمبلی میں جانا لاکھوں کا نہیں اربوں کا معاملہ ہوگیا ہے تو بھلا وہ کیوں چاہیں گے کہ غریب طبقہ بھی زور آور ہوجائے۔ مگر انھیں یہ نہیں معلوم کہ ایسی جمہوریت جو خود اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مار رہی ہے زیادہ عرصے قائم نہیں رہ سکتی۔ کرپشن کا عفریت خود سے نکل رہا ہے اور اب اس بات کا خدشہ ہے کہ صدارتی نظام حکومت کی گفتگو اور مباحثے عوامی رخ نہ اختیار کر جائیں اور کہیں ایوان بالا کی مستقبل میں شکل ہی نہ بدل جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔