ہوش ربا مہنگائی

شاہین رحمن  جمعـء 19 جولائی 2019

اس وقت ملک شدید ترین معاشی اور اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق مئی سے جون تک مہنگائی میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تمام تر بلند وبانگ دعوؤں کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کے گیارہ مہینے میں ملک بھر میں مہنگائی کی شرح میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

یہ صورتحال انتہائی پریشان کن ہے کیونکہ اس طرح ملک میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے جو کسی طور ملکی معیشت کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ دوسری جانب سینیٹ میں وزیر مملکت محصولات نے شیری رحمان کے توجہ دلاؤ نوٹس پر کہا کہ عالمی ادارے کے سربراہ نے بتایا کہ اس سے زیادہ بری معیشت کسی ملک کی نہیں دیکھی ۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انتباہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس وقت اقتصادی سست روی کے باعث ملک میں 8 لاکھ سے 10 لاکھ افراد بے روزگار ہیں جب کہ 40 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں خدشہ ہے کہ آیندہ  آنے والے برسوں میں یہ تعداد مزید بڑھ جائے گی ۔

سب باتیں انتہائی مایوس کن ہیں جس سے عوام میں بے چینی اور بے قراری پھیل رہی ہے۔ حکومت کی مقبولیت میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ حکومت اگر مہنگائی کے سونامی کو روکنے میں ناکام ہوتی ہے تو پھر سب کچھ خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا عوام پر اتنا بوجھ ڈالیں جتنا وہ سہہ سکیں آپ گزشتہ حکومتوں کو برا بھلا کہہ کر سیاسی برتری تو حاصل کرسکتے ہیں، اس حکومت کی سیاسی طاقت دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے ،عوام ناراض ہوں تو گیم چل نہیں سکے گا پہلے حکمران عوام کو تکلیف نہ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے لیکن اب عوام کو ہر روز ایک نئی تکلیف دی جا رہی ہے۔ ایسی پالیسی سے سیاسی و جمہوری حکومت مقبولیت کھو بیٹھی ہے۔

مہنگائی اور معاشی جمود اس حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن بن گیا ہے۔ حکومت کو اندازہ نہیں ہورہا کہ ملک کی مڈل کلاس کے لیے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ بجلی گیس کے نرخوں میں ہوش ربا اضافے نے گھروں کے بجٹ تباہ کردیے ہیں سردیوں میں گیس کے بلوں نے جان نکال دی۔ حکومت نے جعلی انکوائریوں کے اعلانات اور چند افسروں کی تبدیلی سے معاملے پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی لیکن عوام کا درد کم نہیں ہوا حکومت کو مڈل کلاس کی مشکلات کا احساس کرنا ہوگا اب گرمیوں کے آغاز سے بجلی کے بلوں نے بھوت بن کر ڈرانا شروع کردیا ہے ہرگھر میں ایک ہی بحث ہے کہ بجلی کے بل کیسے دیے جائیں گے۔

لوڈ شیڈنگ کی خبروں نے پیپلز پارٹی کے دورکی یاد دلانی شروع کردی ہے، بجلی چوری بند نہیں ہو رہی ہے۔ گزشتہ کرپٹ حکومتوں کی طرح اب بھی بجلی چوری کا بوجھ ان قانون پسند شہریوں پر ڈالا جا رہا ہے جو پابندی سے بل ادا کر رہے ہیں ، موجودہ اور گزشتہ حکومتوں میں کیا فرق ہے۔ آپ بھی کے پی کے، فاٹا، سندھ، بلوچستان سے بجلی کے بل وصول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آپ کے پاس بھی سرکلر ڈیٹ کو کم کرنے اور کنٹرول کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ گزشتہ حکومت آپ کے لیے سرکلر ڈیٹ چھوڑ کر گئی ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ آپ کے دور میں اس میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے ،کیا ہی اچھا ہوتا آپ ملک میں چوری روکنے کے لیے فوج کی مدد سے آپریشن شروع کردیں ۔ اس کی ماضی میں مثال موجود ہے۔

صرف فوج ہی بجلی چوروں کو پکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ ایک طرف حکومت غریب کی فلاح کے لیے اقدامات کا اعلان کر رہی ہے۔ اعلانات کیے جا رہے ہیں کہ غریبوں کی مدد کی جائے گی لیکن دوسری طرف مڈل کلاس کا گلا گھونٹا جا رہا ہے ، نوکریوں میں اضافہ کرنے کے بجائے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن پاکستان کے بڑے اداروں نے ڈاؤن سائزنگ کی ہے تنخواہوں میں کمی کی گئی ہے لیکن حکومت کو کوئی احساس نہیں ہے۔ سفید پوش طبقے کے لیے سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی نے بھی مہنگائی کے طوفان میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔

سب کچھ گزشتہ ادوار پر ڈال کرکب تک کام چلایا جاسکتا ہے۔آخر حالات کو سنبھالنے اور ملک کو چلانے کے لیے کچھ توکرنا پڑے گا، اگر آپ نے بھی وہی کرنا ہے جو گزشتہ حکومتیں کرتی رہی ہیں تو پھر آپ میں اور ان میں کیا فرق ہے کیا یہ دلیل قابل قبول ہے کہ گزشتہ دور میں پٹرولیم کی قیمتیں مہنگی رہی ہیں اس لیے ہمیں بھی پٹرولیم کی قیمتیں مہنگی کرنے کا اختیار ہے کیا یہ دلیل قابل قبول ہے۔ اس لیے ہمیں بھی ایسا کرنے کا اختیار ہے۔

جب (ن) لیگ ایمنسٹی اسکیم لائی تھی تو آپ کہتے تھے کہ چوروں کو تحفظ دیا جا رہا ہے کالا دھن سفید کرنے کے لیے لانڈری لگا دی گئی ہے، چور چوروں کو تحفظ دے رہے ہیں ، ٹیکس چوروں کو سزا دینے کے بجائے عام معافی دے دی گئی کیا کوئی سوال کرسکتا ہے کہ آج آپ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کیوں لا رہے ہیں؟ آپ کریں تو حلال وہ کریں تو حرام۔ وہ کریں تو ملک کے دشمن آپ کریں تو محب وطن۔ مہنگائی اور معاشی جمود اس حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن ہے۔ عوام کی ناراضگی اس حکومت کی بری اپوزیشن بن گئی ہے۔

عوام کا خاموش احتجاج اس حکومت کے خلاف سب سے بڑی احتجاجی تحریک ہے آپ محسوس کریں یا نہ کریں لیکن گھرگھر مہنگائی اور معاشی جمود کی وجہ پریشانی چھائی ہوئی ہے لوگوں میں ناراضگی اور غصہ نظر آرہا ہے تبدیلی ایک نعرے سے طعنہ بنتی جا رہی ہے، یو ٹرن پالیسی کو پذیرائی نہیں مل رہی ہے۔ تحریک انصاف کا ووٹ بینک پڑھے لکھے نوجوان ہیں وہ ناراض اور ناامید ہیں یہی حکومت کے لیے اصل پریشانی ہے مگر شاید کوئی سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔ عمران خان عوام کو جو خواب دکھا کر آئے ہیں وہ بڑے ہی سہانے خواب ہیں اس طرح کے خواب عوام نے زرداری اور نواز شریف کے بارے میں نہیں دیکھے تھے اور کہتے ہیں کہ خوابوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا عمل خواب دیکھنے اور دکھانے دونوں کے لیے نہایت تکلیف دہ اور کبھی کبھی انتہائی خطرناک بھی ہو جاتا ہے۔  فیض احمد فیض نے کہا تھا:

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔