’’نہ کرنا‘‘ ایک بہترین زریں اور گوہریں مشورہ

سعد اللہ جان برق  منگل 6 اگست 2019
barq@email.com

[email protected]

آج ہم اپنی حکومت کو جو زرین گوہریں وجواہریں مشورہ دینا چاہتے ہیں۔ وہ ایک ایسا مشورہ ہے کہ آج تک نہ تو تاریخ میں اور نہ جغرافیے میں کسی نے کسی حکومت کو نہیں دیا ہوگا۔یہ مشورہ ان تمام مشوروں کے قطعی برعکس ہے جو اب تک حکومتوں کو دیے جاتے رہے ہیں۔ان تمام مشوروں کا لب لباب’’کرے‘‘ہوتاتھا اور ہے، یعنی حکومت یہ کرے،  وہ کرے،یہاں کرے ،وہاں کرے، ایسا کرے، ویسا کرے۔یعنی ’’کرے ہی کرے‘‘تھا۔ظاہر ہے کہ حکومت اتنا زیادہ ’’کرے‘‘کہاں سے لاتی کیونکہ اس کے اپنے بھی بہت سارے ’’کرے‘‘اسے کرنا ہوتے تھے۔

اور ہوتے ہیں، چنانچہ آج ہم کیس کے واقعات وحالات، گواہوں کے بیانات اور وکیلوں کے مقالات سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’ملزم‘‘کو باعزت بری کرتے ہوئے ہر قسم کے ’’کرے‘‘ سے آزاد کریں اور اسے ہدایت کریں کہ بس بہت ہوگیاہے یہ ’’کرے‘اس لیے آیندہ ’’کرے‘‘ سے مکمل پرہیزکرتے ہوئے ’’نہ کرنے‘‘پر دھیان دے۔  کیونکہ دنیا کا یہ سارا ’’گند‘‘ حکومتوں کے ’’کرنے‘‘سے وجود میں آیاہے اور اب فائدہ اسی میں ہے کہ حکومت کچھ بھی نہ کرے۔

اور اگر حکومت نے اس ہدایت یا مشورے پر عمل کیا۔اور اسے صرف یہی ’’کرنے‘‘کی اجازت ہے کہ اس مشورے پر عمل ’’کرے‘‘اس کے علاوہ اور کسی بھی ’’کرے‘‘کو ہاتھ نہ لگائے یعنی اب تک جو بھی کرتی رہی ہے، ان سب سے توبہ تائب ہوکر صرف’’نہ کرنے‘‘پر عمل پیرا ہوجائے، اس مشورے کے ساتھ ہم یہ لائف ٹائم گارنٹی بھی دیتے ہیں کہ ’’نہ کرنے‘‘سے وہ تمام گند صاف ہوجائے گا جو ’’کرنے‘‘ سے جمع ہوچکاہے۔

یہ معذرت خواہانہ وضاحت ضروری ہے کہ ’’گند‘‘سے ہماری مرادخود حکومت کے چھوٹے بڑے… نہیں ہیں بلکہ مراد اس گند سے ہے جو آج عوام کے آنگن میں بھوک افلاس،بے روزگاری،مہنگائی،جرائم اور’’فلاحی اداروں‘‘کی صورت میں ڈھیرہوچکاہے اور جس کی بدبو سے عالم حلقہ بدبو مثال ہے۔اس ساری غلاظتوں کی واحد وجہ حکومت کا ’’کرنا‘‘ ہے۔ پشتو میں ایک کہاوت بھی ہے کہ ’’کام‘‘ صرف اور صرف ’’کرنے‘‘سے ختم ہوتاہے لیکن بات،جنگ اور غلاظت ’’نہ کرنے‘‘سے ختم ہوتی ہے جب کہ حکومت کا ہر ’’کرنا‘‘اس ہی ’’نہ کرنے‘‘سے ختم ہونے والی فہرست میں آتاہے۔ اس سلسلے میں شعرا نے بھی بہت کچھ کہاہوا ہے، مثلاً ’’ہم یہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احسان ہوتا‘‘

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیاکم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

مطلب یہ کہ ہم حکومت کو وہ دوست سمجھ سکتے ہیں جو آدمی کو ’’دشمن‘‘سے مکمل طور پر بے نیاز کردیتاہے۔بات کو پوری طرح سمجھانے کے لیے ہم مجبوراً ایک بہت ہی پرانے اور بار بار دہرائے جانے والے حقیقے کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ بالکل ہمارے سامنے کا یعنی چشم دیدہ گوش شنیدہ واقعہ ہے۔ ایک شخص نے باغوں کے ایک سوداگر سے کہا کہ دیکھو تمہارا خریدا ہوا وہ باغ جو میرے کھیت کے پڑوس میں ہے، اس میں بڑا نقصان ہورہاہے۔

لوگ بے تحاشا پھل چوری کر رہے ہیں۔تم اس کے لیے کوئی رکھوالا رکھ لو۔ پھر بولا ، تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ سو روپے مجھے دے دو، میں پڑوس میں ہونے کی وجہ سے رکھوالی کرلیاکروں گا۔اب مثلاً یہ جو آج کا سب سے بیسٹ سیلرآئٹم مہنگائی ہے یا اس کی بڑی بہن کرپشن ہے۔اس سے اگر حکومت ’’تؑعرض‘‘کرنا چھوڑ دے یعنی کچھ بھی نہ کرے۔تو عین ممکن ہے کہ ان دونوں کا پیٹ بھر جائے ارمان نکل جائیں اور یا پھر ان میں کہیں نہ کہیں ’’رحم‘‘کا شائبہ شامل ہوجائے۔لیکن تمہارے’’ کرنے‘‘کی وجہ سے،

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

اور یہ کوئی خیالی بات نہیں ہے، ہم نے خود ایسا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہمارے روزنامہ بانگ حرم کے دفتر کے نیچے ایک شخص ٹھیلے پر کیلے بیچتاتھا۔ ایوب خان کا زمانہ تھا۔ جب حبیب جالب نے ’’بیس روپے من آٹا، اس پر بھی سناٹا،کہاتھا۔ آج اس ’’من آنے‘‘ کا پانچواں حصہ ایک توڑے کی صورت میں پندرہ سو روپے کا ہے۔ خیر چھوڑیے آٹے کوگولی ماریے،اگر نہ بھی ہو تو بازار میں پلاؤ زردے، بریانی کی دکانیں کھلی ہیں، بات’’کیلوں‘‘ کی کرتے ہیں۔ وہ کیلے والا جب ٹھیلے پرسجاتا تھا تو اس سے پہلے وہ حساب لگاچکاہوتاتھااور کیلے چھ روپے درجن کی آواز بھی لگاتا تھا۔

جس دکان کے سامنے وہ کھڑا ہوتا اس کا مالک اس کا موٹا سا بیٹا اور دوچار ملازم آکر ڈیڑھ دودرجن کیلے کھالیتے تھے تو اس کی آواز آٹھ روپے درجن ہوجاتی تھی۔کچھ دیر میں پولیس کے سپاہی آکر پہلے اسے دھمکاتے اور پھر کیلے کھانے لگتے۔ دو درجن تو وہیں ہڑپ لیتے اور ایک ایک گچھا ہاتھ میں لے کر چلے جاتے۔کیلے والا پھر دس روپے درجن، ہری چھال، ہری چھال دس روپے درجن چلانے لگتا۔اتنے میں کمیٹی کے اہل کار آجاتے اور اچھے اچھے کیلے چن کر چلے جاتے۔تو اس کی آواز بارہ روپے درجن ہوجاتی ۔ہمارے دفتر کے لوگ بھی آتے جاتے سیڑھیوں میں کھڑے اس کے کیلوں سے علیک سلیک ضرور کرتے اور آس پاس کی دکانوں والے بھی دوپہر کے وقت تھانے کا سپاہی آکر ایس ایچ او کے گھر کے سودے میں دو درجن کیلے بھی شامل کرتا۔ یوں شام تک کیلے پچیس روپے درجن تک جاپہنچتے۔

اب ہم نے انگلیوں پر حساب لگایا کہ بازار میں مہنگائی کنٹرول کرنے والے اور یہ نیب وریب کے قانون نافذ کرنے والے، مطلب یہ کہ حکومت کے تمام ’’کرنے والے‘‘اگر ’’نہ کریں‘‘ تو یقیناً کیلے چھ روپے درجن ہی رہیں گے۔ رکھوالا اگر باغ کی رکھوالی نہ کرے قانون نافذ کرنے والے اگر قانون نافذ نہ کریں اور احتساب کرنے والے بھی احتساب سے باز آجائیں توکیاہوگا۔وہی ہوگا جو ’’نہ کرنے‘‘سے ہوتا ہے۔ انصاف سے کہیے بلکہ تحریک انصاف سے کہیے کہ اس سے بہتر مشورہ آج تک کسی نے نہ کسی حکومت کو دیاہے نہ کسی لیڈر کو؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔