آرٹیکل 370 کا خاتمہ

دانش ارشاد  منگل 6 اگست 2019
 مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے فیصلہ کُن کردار کا لمحہ آن پہنچا

 مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے فیصلہ کُن کردار کا لمحہ آن پہنچا

ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور اسٹیٹ سبجیکٹ سے متعلق صدراتی حکم نامہ 35اے ختم کرتے ہوئے ریاست کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کردیا، جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی علاقہ کہلائے گی، جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی اور لداخ کو وفاق کا زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا ہے، جو قانون سازی سے پاک ہو گا۔

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ( راجیہ سبھا) میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کیا۔ اس بل پر قانون سای کی جائے گی، جس کی منظوری کے بعدکشمیر کی خصوصی حیثیت مکمل طور پر ختم ہو جائے گی، تب وہاں ہندوستان سے لوگوں کو لاکر فلسطین کی طرز پر بسایا جائے گا۔ بھارت کے اس فیصلے سے قبل وادیِ کشمیر میں مزاحمت اور احتجاج کو دبانے کیلئے پینتیس ہزار سے زائد نیم فوجی تعینات کیے گئے تھے۔

ائیرفورس کو بھی الرٹ رہنے کا حکم نامہ سامنے آیا تھا اور وادی میں موجود مساجد کا ریکارڈ بھی جمع کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ داخلہ کی جانب سے بیرون ریاست سے آئے سیاحوں اور یاتریوں کیلئے نوٹس جاری کیا گیا تھا کہ وہ جلد از جلد کشمیر سے واپس چلے جائیں۔

اس سے قبل کشمیر کی تحریک کود بانے کیلئے بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج پہلے ہی یہاں موجود ہے۔سری نگر میں موجود صحافی طارق علی میر کے مطابق وادی کے ہر تھانے میں پولیس اور نیم فوجیوں (CRPF)کی تعداد یکساں رکھی گئی ہے تاکہ ممکنہ مزاحمت روکنے کیلئے اقدامات کیے جا سکیں۔

دفعہ 35A کیا ہے؟

ہندوستان کے آئین کی دفعہ 370کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو آئین ہند میں خصوصی حیثیت حاصل ہے ، اس کے مطابق ریاست کا دفاع، امور خارجہ اور بیرون ملک سفر ہندوستان کے ذمہ ہے ۔ اس کے علاوہ ہندوستان ریاست جموں و کشمیر کے کسی آئینی معاملے کو چیلنج کرنے یا ریاست کے حوالے سے قانون سازی کا مجاز نہیں ہے۔

مذکورہ تین امور کے علاوہ آئین ہندوستان کے مطابق تمام دیگر امور دفعہ370کے تحت ہیں۔ اسی طرح دفعہ 35Aکے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں صرف ریاستی باشندے مستقل سکونت اختیار کرسکتے ہیں ، غیر ریاستی باشندے جموں و کشمیر میں جائیداد بنا سکتے ہیں ، وہاں ووٹ دے سکتے ہیں اور نہ ہی روزگارحاصل کر سکتے ہیں۔ ووٹ ڈالنے، ریاست کے اندر روزگار حاصل کرنے اور مستقل سکونت کا حق صرف ریاست کے باشندوں کا ہے۔

دفعہ 35A دراصل اس قانون کی توثیق تھی جو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927میں کئی عوامل کی وجہ سے لاگوکیا تھا۔ جن میں ایک وجہ کشمیری پنڈتوں کا اس بات پر احتجاج تھا کہ سرکاری نوکریوں میں پنجابی اور دیگر غیر ریاستی باشندوں کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے جس سے پنڈتوں کی نمائندگی پر اثر پڑ رہا ہے۔ کشمیری مسلمان عموماً ان پڑھ اور سرکاری ملازمتوں میں برائے نام ہی تھے، اس لئے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ مشرقی پنجاب کے زمیندار، کشمیری لڑکیوں سے شادیاں کرکے زمینوں کے مالکانہ حقوق مانگتے تھے اور تیسری اہم وجہ مہاراجہ کا یہ خوف تھا کہ کہیں برطانوی افسران کشمیر میں مستقل رہائش اختیار نہ کر لیں، کیونکہ کشمیر اور انگلینڈ کا موسم خاصی حد تک مماثلت رکھتا تھا۔یہ مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین میں حصوصی حیثیت اور آئین کی دفعہ 35Aسے متعلق ہلکا سا تعارف ہے جس سے اصل صورت حال سمجھنے میں آسانی رہے گئی۔

دفعہ 35A کے خلاف سازش کب کی گئی اور کیا موقف اپنایا گیا؟

تازہ ترین صورتحال کے مطابق 35A کو ختم کرنے کیلئے ہندوستان کی حکمران جماعت کی جانب سے پارلیمنٹ میں بل لا کر آئین میں ترمیم سے اس قانون کو ختم کرنے کی باز گشت ہے۔

بھارت میں گزشتہ دور حکومت کے دوران حکومت کے قیام کے دو ماہ بعد19اگست 2014کوہندو فرقہ پرست جماعت آر ایس ایس کے کشمیر کے حوالے سے بنائے گئے تھنک ٹینک جموں کشمیر اسٹڈی سنٹر دہلی نے ایک غیر سرکاری تنظیم “We the People” کو استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کی سپریم کورٹ میں ریاست جموں کشمیر کی آئینی حیثیت اور شناخت (اسٹیٹ اسبجیکٹ رول)کو چیلنج کرنے کی لئے درخواست دائر کی تھی جس میں تنظیم کی طرف سے موقف اپنایا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 35Aکی وجہ سے ہندوستان کے عوام کے حقوق غصب ہوتے ہیں ۔

عوام میں غیر مساوی سلوک کیا گیا ، درخواست جمع کروانے والے جموں کشمیر اسٹڈی سنٹردہلی نے درخواست میں دعوی کیا ہے کہ وہ اپنے سابق صدر کی غلطی کو سدھارنا چاہتے ہیں جو انہوں نے 1954میں کی۔ درخواست گزار کے مطابق سابق صدر ہند نے ہندوستانی پارلیمنٹ کو اطلاع کیے بغیر ہی کشمیر کے متعلق تیار کیے گئے مسودے پر دستخط کر کے غلطی کی ہے ،اس لئے جموں کشمیر اسٹڈی سنٹر کی سفارش پر اس قانون 35Aکو کالعدم قرار دیا جائے۔

اس پر سپریم کورٹ نے ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو نوٹسز بھی جاری کئے تھے، جس پر ریاستی حکومت نے دفاع بھی کیا اور قانونی دلائل بھی دیے جبکہ دہلی نے نوٹس پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔ اس پر ہفت روزہ رہبر نے لکھا تھا کہ” مرکزی حکومت کے جواب نہ جمع کروانے سے محسوس ہوتا ہے کہ دہلی اس کیس میں پارٹی نہیں بننا چاہتی اور عدالت کو آزادی دی گئی کہ وہ یک طرفہ فیصلہ سنائے”۔ مذکورہ آئینی درخواست پر عدالت نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔

اسی طرح 2015 میں بی جے پی نے پی ڈی پی کی مدد سے جموں کشمیر اسمبلی میں اتحادی بن کر خصوصی حیثیت کے خلاف سازشیں شروع کیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے کشمیر میں 2015میں حکومت بنانے کے لئے بی جے پی سے اس شرط پر اتحاد ہوا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت آرٹیکل370 سے نہیں چھیڑے گی۔ تاہم در پردہ بی جے پی نے نہایت چالاکی سے اپنا کام کرتے ہوئے کشمیر اسمبلی سے جی ایس ٹی بل پاس کروایا جس سے کئی مقامی اور مالی اختیارات مرکز کو چلے گئے۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت کب اور کس طرح آئین ہند کا حصہ بنی؟

کشمیر کا آئین(آرٹیکل 370) 14مئی 1954کو ہندوستان کے صدر کے آئین ہند پر دستخط سے بنا تھا۔1951کو بننے والی پہلی مقبوضہ کشمیر اسمبلی نے ہندوستان کے آئین کا کشمیر سے متعلق حصہ مرتب کیا تھا۔افتخار گیلانی لکھتے ہیں کہ”کشمیر کاآئین بھی ایک ایسی اسمبلی نے تیار کیا تھا جس کی حقیقت اور حیثیت کی قلعی خود اس وقت کے انٹیلی جنس سربراہ بی این ملک نے کھول دی۔ ان کے بقول ”ان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا جو حزب مخالف کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے”۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ الحاق کی دستاویز کی توثیق اور کشمیر کے آئین کی منظوری کو کوئی عوامی تائید حاصل نہیں تھی۔

پھر بھی جو قوانین بنے ان کو ختم کرنے کیلئے پچھلے 69 برسوں میں بھارتی حکومتوں نے آرٹیکل 370 کو اس بری طرح سے مسخ کر دیا کہ اس کا اصلی چہرہ اب نظر ہی نہیں آتا۔ کئی مواقع پر خود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزت نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے ان آئینی خلاف ورزیوں کے لئے راہ ہموار کی۔ افتخار گیلانی مزید لکھتے ہیں کہ”اگر ایک طرح سے کہا جائے کہ آئین کی اس شق نے کشمیریوں کو سیاسی گرداب سے بچنے کے لئے جوکپڑے فراہم کئے تھے، وہ سب اتر چکے ہیں اور اب صرف دفعہ35Aکی صورت میں ایک نیکر باقی ہے تو بے جا نہ ہو گا”۔اب فرقہ پرست عناصر اب اسی نیکر کو اتارنے، کشمیریوں کی عزت نیلام کرنے اور ان کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے کے لئے ایک گھناونا کھیل کھیل رہے ہیں، جس کے لئے پہلے عدالتی نظام کا سہارا لیا گیا اور اب پارلیمنٹ کا سہارا لیکر صدارتی فرمان کے ذریعے ختم کر دیا گیاہے۔

اس دفعہ کو ختم کرنے کے کیا اثرات ہونگے؟

دفعہ 370اور 35اے کی منسوخی سے مقبوضہ کشمیر کی آبادیاتی اور مذہبی صورتحال یکسر تبدیل ہوجائے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم ہوجائے گی اور وہاں غیر مسلموں اور غیر کشمیریوں کو بسایا جائے گا۔ جب یہ معاملہ عدالت گیا تھا تب ہی کانگریسی راہنما سیف الدین سوزنے کہا تھا کہ ”سپریم کورٹ کی طرف سے اس پٹیشن کو شنوائی کے لئے منظور کرنا ہی ان کے لئے باعث حیرت ہے اور آر ایس ایس کو بھی61 سال بعد یاد آئی کہ صدر ہندوستان سے غلطی ہوئی اور اس غلطی کو سدھارا جائے۔اگر یہ آرٹیکل ختم کر دیا گیا تو اس کے نتائج دفعہ 370کے خاتمے سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے”۔ گزشتہ روز بھی کانگریس کے رہنما غلام نبی نے حکومت کے اس فیصلے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی نے آج آئین کا قتل کردیا ہے۔

1948میں جموں و کشمیر پر بھارتی حکومت نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا تھا جس میں سردار پٹیل کا یہ بیان موجود ہے: ”الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت بھارت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے بالکل عارضی مانتی ہے جب تک کہ اس بارے میں ریاست کے لوگوں سے ان کی رائے نہیں معلوم کی جائے گی”۔

ایک بھارتی سیاستدان کے بقول جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی نے (جن کا نام آرٹیکل 370 کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اچھالتی ہے)نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔ کشمیر واحد ریاست تھی جس نے الحاق کے لئے اپنی شرائط پر حکومت سے مذاکرات کیے تھے۔ وہ بھارت میں ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے الحاق کیا تھا، اس لیے ان کے مطابق آرٹیکل 370 دونوں کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے جس کی کسی شق کو کوئی بھی فریق یکطرفہ ترمیم نہیں کر سکتا۔

ہفت روزہ رہبر اپنے مضمون میں دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتاتھا کہ ”اگرعدالت نے دفعہ 35A کو منسوخ کیاتو 50کے قریب دیگر صدارتی حکم نامے بھی فارغ ہو جائیں گے جو غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر جاری کیے گئے اور اگر یہ سب گئے تو بات 1947کے الحاق تک پہنچ جائے گی جو دہلی کیلئے سنگین صورتحال ہو گی”۔

اس صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر تقسیم کیے بغیر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا جائے تو عارضی رشتہ ہونے کے باعث کشمیر کا ہندوستان سے تعلق ختم ہو جائے گا اور ہندوستان کو کشمیر چھوڑنا ہو گا۔

دفعات کے خاتمے سے مسئلہ کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں بھارت اور پاکستان انتظامی حوالے سے کشمیر کو کوئی بھی سیٹ اپ دے سکتے ہیں تاہم ان دفعات کے خاتمے سے کشمیر کا آبادیاتی تناسب بگڑے گا اور اگر رائے شماری ہوتی ہے تو ہندوستان اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری میں وہی لوگ ووٹ دے سکیں گے جو کشمیر کے باشندے ہونگے اور کشمیر کے باشندے کی پہچان اسٹیٹ سبجیکٹ ہے جو ہندوستان اس وقت ختم کر رہا ہے ۔ ایسے میں جب رائے شماری ہو گی تو کشمیریت کی پہچان کن بنیادوں پر ہو گی؟ یہ اقوام متحدہ کیلئے ایک بڑا سوال ہو گا۔

دفعہ 370 میں ترمیم کیسے ہو گی؟

اس دفعہ میں ترمیم ہندوستان کے پارلیمنٹ سے دو تہائی اکثریت سے ہو گی اگر وہاں سے منظوری ہو جاتی ہے تو س کے بعد اس کی توثیق جموں و کشمیر اسمبلی سے کروائی جائے گی اور پھر صدر ہند اس پر دستخط کریں گے ابھی صدر نے بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری دی ہے جس پر قانون سازی ہونا باقی ہے۔ تاحال کشمیر میں انتخابات نہ ہونے کے باعث اسمبلی نہیں ہے۔ وہاں کا نظام گورنر راج اور پھر صدارتی راج کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔

موجودہ صورتحال اور سیاسی جماعتیں

موجودہ صورتحال میں کشمیر کی ہند نواز سیاسی جماعتوں کی جانب سے کافی ردعمل دیکھنے کو ملا اور فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے آل پارٹیز کانفرنس بھی کی تھی جس میں خصوصی حیثیت کو ختم کرنے پر سخت ردعمل دینے کا اعلامیہ جاری کیا تھا۔ اس کانفرنس کے بعد کشمیر کے ہند نواز سیاست دانوں کو بھی ان کی رہائش گاہوں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وادی میں موبائل فون سروسز، انٹرنیٹ سروسز اور رابطوں کے تمام سلسلے بند کر دیے ہیں تاکہ ردعمل کو دنیا کے سامنے لانے سے روکا جا سکے۔

ہندوستان کے اس فیصلے پر کانگریس سمیت کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت بیانات سامنے آئے ۔ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ آج کشمیر کی لیڈرشپ کا دو قومی نظریہ کو ٹھکراتے ہوئے بھارت سے الحاق کا فیصلہ غلط ثابت ہوگیا۔بھارت کا یکطرفہ فیصلہ غیر قانونی وغیر آئینی ہے، آج بھارتی جمہوریت کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے مختلف ممالک سے رابطے کئے جا رہے ہیں، کیوں کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے فیصلہ کُن کردار کا لمحہ آن پہنچا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔