چالیس بھوتوں کا قصہ

سعد اللہ جان برق  بدھ 7 اگست 2019
barq@email.com

[email protected]

ہماری عادت ہے اور یہ عادت بڑی اچھی ہے کہ ہم  طوفان گرد وباد میں ہلنے جلنے کی کوشش نہیں کرتے۔ لوگ یہاں وہاں آنکھوں میں طرح طرح کی دھول اور خس و خاشاک بھر کر یہاں وہاں ٹکریں مارتے رہتے ہیں اور جب سب کچھ شانت ہو جاتا ہے تو ہم نکل کر طوفان کے نقصانات کا پتہ لگاتے ہیں۔

پڑوسی ملک میں بھی جب مودی نام کے طوفان نے سنسانا شروع کیا اور پھر اس نے ملک کی سیکولر قوتوں کو مات دے کر اپنا ’’ہندوتوا‘‘ مسلط کیا تو اس پر ہمارے ہاں کے دانا دانشوروں نے بھی دانش کا ایک طوفان برپا کیا، جس میں نہ جانے کہاں کہاں کی کوڑیاں لا کر دانش کی ہانڈیاں پکائی گئیں۔ اور تقریباً ان سب کا ذائقہ ایک ہی تھا کہ مودی نے مسلم دشمنی سے ووٹ حاصل کیے۔ بات میں  کچھ اور بھی ٹوسٹ ڈالے گئے کہ فلاں چیز نے مودی کو جتایا، فلاں بات یوں یوں ہوئی اور یوں یوں کر کے یوں یوں کیا گیا۔ لیکن یہ سب کچھ جھوٹ تھا، جھوٹ ہے اور جھوٹ رہے گا۔

کیونکہ کسی نے بھی مودی کی جیت کی اصل وجہ نہ معلوم کینہ بتائی، بس  یوں ہی یہاں وہاں کی ہانک دانش کی ہانڈیاں چڑھاتے رہے۔ یہ ہم اب آپ کو بتائیں گے کہ مودی کو کس نے جتایا، مودی کو ان چالیس کے لگ بھگ بھوتوں نے جتایا۔ جو پلوامہ میں پیدا کیے گئے تھے۔ کیسے؟ کیوں؟ اور کس نے ان ’’بھوتوں‘‘ کو پیدا کیا، یہ پتہ ہم یقین سے نہیں بتاپائیں گے کیونکہ بھوت تو بھوت ہوتے ہیں اور بھوتوں کا حال یا تو بھوت جانتے ہیں یا عامل کامل لوگ۔ لیکن اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں اور سب لوگ جانتے ہیں کہ پلوامہ سے لگ بھگ چالیس بھوت نکلے، سارے ووٹروں کے اعصاب پرسوار ہوئے اور مودی کو جتایا۔ اب یہ بھوت مودی نے خود پیدا کیے تھے یا کسی دوست عامل کامل کی مدد لی تھی، یہ کوئی نہیں کہہ سکتا یا کم ازکم ہم نہیں کہہ سکتے۔

کیونکہ تاریخ میں ایسے بھوت تیار کرنے کا سلسلہ قدیم زمانے سے رائج چلا آ رہا ہے کیونکہ سیاست کا کاروبار اتنا زندوں سے نہیں چلتا جتنا بھوتوں سے چلتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بھوت نہ دکھائی دیتے ہیں  نہ سنائی دیتے ہیں اور ان مقامات تک بھی پہنچ جاتے ہیں جہاں انسانوں کی رسائی ناممکن ہوتی ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ یہ انسان کے جسم سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ سیدھے سیدھے جا کر دل و دماغ اور اعصاب پر قبضہ کر لیتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ جب ’’ہیڈکوارٹر‘‘ پر ان کا قبضہ ہو جاتا ہے تو پھر آگے کچھ بھی کرایا جا سکتا ہے۔ مودی نے بڑا شاطرانہ بلکہ بھوتانہ کھیل کھیلا ، یہ تو ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ پلوامہ کے بھوت خود بخود یا اچانک تیار ہو کر نکل آئے بلکہ صاف صاف جھلکتا ہے کہ عین موقع پر جب ایسے ہی بھوتوں کی ضرورت تھی، یہ نکلے اور ایسے نکلے ووٹ لے کر کہ کہیں کسی بھی سڑک پرکوئی موڑ نہیں آیا۔ اور نہ ہی کوئی دل یا ووٹ چھوڑ آیا۔

ہم بے شک محقق ہیں اور ہم نے اپنے تمام محققانہ تجربات بروئے کار لا کر سر توڑ کوشش بھی کی کہ کسی طرح یہ معلوم کیا جائے کہ پلوامہ کے یہ بھوت کیسے پیدا کیے گئے اور یہ کس ’’عامل‘‘ کا کارنامہ تھا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی نے یا اس کے طرف داروں نے جو عامل تلاش کیا تھا اور اس کام پر لگایا تھا وہ کچھ معمولی قسم کے عامل شناس نہیں تھے۔ ویسے بھی اتنے زیادہ بھوت بیک وقت منصہ شہود پر لانا کسی معمولی عامل کامل کا کام نہیں ہو سکتا۔ اتنی زبردست ٹائمنگ کے ساتھ اتنے موثر طریقے پر اتنے کارآمد بھوت تیار کرنا کسی بہت بڑے عامل کا کام ہی ہو سکتا ہے۔

لیکن اب اس کا پتہ لگانا ناممکن اس لیے ہے کہ بھوت تو  کچھ بتاتے نہیں، دکھائی سنائی اور سمجھائی بھی نہیں دیتے، صرف مودی ہی بتا سکتا ہے یا وہ عامل کامل۔ لیکن مودی بلا کا ’’گنی‘‘ اور کھلاڑی آدمی ہے۔ وہ کیوں بتا کر دے گا اور بتانے میں نقصان بھی بہت ہے۔ رہا عامل تو وہ یقیناً کامل ہے۔ ہو گا۔ گویا یہ راز ہمیشہ راز رہے گا کہ اتنی  پرفیکٹ ٹائمنگ کے ساتھ اتنے پرفیکٹ بھوت کیسے پیدا کیے گئے تھے۔ جو پورے ہندوستان کے ذہنوں کو قبضے میں لے کر اپنی مرضی سے چلاتے رہے۔ ووٹ ڈلواتے رہے اور مودی کو خلاف توقع جتواتے رہے۔

کوئی کچھ بھی کہے لکھے یا چلائے ہمیں اقسام کے ہندی چینلوں سے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ وہاں کے عوام کا رجحان کس طرف ہے، ویسے بھی ہندو دھرم کوئی باقاعدہ مذہب یا عقیدہ و نظریہ نہیں رکھتا بلکہ توہمات، روایات اور جہالتوں کا ایک ڈھیلا ڈھالا نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں سے بھی کوئی مٹھی بھر حکمرانوں کا ٹولہ آیا ہے، اس نے یہاں حکومت کی ہے اور اس کے مقابل کبھی بھی ہندی دھرم نہیں ’’جاگا‘‘ ہے۔ لیکن اب ’’جاگتا ہوا‘‘ دکھائی دے رہا ہے ۔کیوں؟ کیسے؟ کہ نہ تو اس میں کوئی نئی چیز پیدا ہوئی ہے نہ کوئی نئی کتاب نازل ہوئی ہے نہ ہی کوئی دھارمک انقلابی شخصیت پیدا ہوئی ہے، وہی سب کچھ پرانا بلکہ پہلے سے بھی بدتر نظام ہے۔

تو پھر یہ ہندی دھرم جاگا کیسے؟ کس نے اسے جگایا ،کب جگایا اور کیوں جگایا اور اب جاگنے پر وہ کیا کیا کر رہا ہے، یہ سب جانتے مانتے اور زیر بحث لاتے رہتے ہیں ۔مطلب اس ساری بحث کا یہ ہے کہ ہر لحاظ سے ایک سیکولر بلکہ لامذہب ملک میں اچانک دھرم کا مرد بیمار بلکہ ’’لب گور‘‘ مردہ کیوں اتنا جاگا کہ ایک ’’دیو‘‘ کی صورت میں پائے کوب ہے۔ لیکن ہمیں اچھی طرح پتہ ہے کہ یہ سب کچھ ان بھوتوں کی وجہ سے ہو  رہا ہے جو وقتاً فوقتاً نہ جانے کون بنا کر مسلط کر دیتا ہے اور پھر وہ بھوت عوام کو لاحق ہو کر مودی جیسے لوگوں کی مدد کر ڈالتے ہیں۔

کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ مودی اس مرتبہ جیت پائے گا کہ تقریباً اسی فیصد اس کی مخالفت موجود تھی اور اگر سیاسی کمالات یا اقتدار کی برکت سے اس کے حصے میں کچھ آتا بھی تو وہ زیادہ سے زیادہ مخلوط حکومت ہوتی جس میں بی جے پی کو صرف انیس بیس کی برتری حاصل ہوتی۔ کسی کو ذرا بھی توقع نہ تھی کہ اچانک ’’بھوت‘‘ اس کی مدد کو آ جائیں گے لیکن وہ جانتا تھا کہ صرف بھوت ہی اسے جتا سکتے ہیں اور جتا بھی دیا۔ اب لوگ سوچتے رہیں کہ پلوامہ کے بھوت کس نے بنائے تھے۔ خود مودی نے یاکسی اور اس کے’’شبھ چنتک‘‘ نے ، بہرحال حرف آخر یہ کہ یہ سارا کیا دھرا اور اپ سیٹ پلواما کے بھوتوں کی وجہ سے تھا،جو ہو گیا ہے۔ چالیس چور اور علی بابا، یا چالیس چور اور مو دادا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔