کیا یہ المیہ نہیں ؟

زاہدہ حنا  بدھ 14 اگست 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

عربوں کی علمی روایت ’’اخوان الصفا ‘‘ تھی اور فرانسیسیوں نے انسائیکلوپیڈسٹس کو جنم دیا۔رسائل اخوان الصفا ہوں یا انسائیکلو پیڈسٹ کے کارنامے، یہ دونوں ہی عرب اور فرانس کے اکابرین کی اجتماعی ذہانت کی عکاسی کرتے ہیں جب کہ نیاز صاحب نے اس وضع کا مہتم بالشان کام تن تنہا کیا۔کسی کو یقین نہ آئے تو ’’ نگار‘‘ کے شماروں کی ورق گردانی کر لے، جسے شمارے مہیا نہ ہوں وہ مخدومی و مکرمی مرحوم قیصر ابن حسن کا مرتب کردہ اشاریہ نگار ملاحظہ کرے۔ میرے اس دعویٰ پر وہ کچھ اضافہ ہی کرے گا، اس میں کمی نہ کرسکے گا۔

’’نگار‘‘ ایک رسالہ نہیں، ادارہ تھا۔اس زمانے میں وہ گھر مہذب اور تعلیم یافتہ تصور نہیں کیا جاتا تھا جس میں ’’نگار‘‘ نہ آتا ہو۔اس کے پرچے سنبھال کر رکھے جاتے،انھیں یکجا کرکے فائلیں بنائی جاتیں اور ذاتی کتب خانوں میں محفوظ کی جاتیں۔ہندوستان کی اہم لائبریریوں کے علاوہ اس وقت بھی آپ کو سندھ ، پنجاب ، بلوچستان اور پشتون علاقے میں ایسے علم دوست گھرانے مل جائیں گے جہاں ’’نگار‘‘ کے پرانے شمارے محفوظ ہیں۔

اس رسالے میں ادب ، فلسفہ ، مذہب اور سائنس غرض ہر شعبے سے متعلق مضامین شایع ہوتے تھے اور لوگوں کو ان معاملات و مسائل پر نئے انداز سے غوروفکر کے لیے مجبور کرتے تھے۔اس کی فائلوں کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمیں 20ء ، 30ء اور 40ء کی دہائیوں میں وہ موضوعات نظر آتے ہیں جن کے بارے میں آج ہمارے اخبار اور رسالے کچھ چھاپتے ہیں تو اس پر نازکرتے ہیں کہ وہ ’’جدید  ترین مسائل ‘‘ پر لکھ رہے ہیں۔کس قدر دلچسپ بات ہے کہ نیاز صاحب ہمیں فروری 1922میں ’’اشتراکیت ‘‘ کے معاملات و مسائل پر خامہ فرسائی کرتے نظر آتے ہیں۔

یاد رہے کہ انقلاب روس کو برپا ہوئے اس وقت پانچ برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے۔اسی طرح وہ ’’سرطان‘‘ پر دسمبر 1925 میں قلم اٹھاتے ہیں اور ’’انسولین‘‘ کے بارے میں اپنے پڑھنے والوں کو جنوری 1926 میں آگاہ کرتے ہیں۔ فرانسیسی منجم ناسٹرا ڈیمس جس کے نام سے لوگ ان دنوں ایک فلم کی وجہ سے متعارف ہوئے ہیں،اس کے بارے میں نیاز صاحب نے اپریل 1942میں ’’ناسٹرا ڈیمس کی عجیب وغریب پیش گوئیاں‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔ اسی طرح وہ ہمیں جدید نفسیات ، ہپناٹزم ، مقناطیسی نیند ، مسمیرزم اور جنسیات پر لکھتے ہوئے ملتے ہیں۔

کہیں وہ ہمارے سامنے ایک افسانہ نگارکے روپ میں آتے ہیں توکبھی نہایت دقیق فلسفیانہ مسائل کی گتھیاں سلجھاتے ہیں، کہیں وہ مذہبی اعتقادات کے بارے میں مدلل بحثیں کرتے ہیں اور کبھی تاریخ اور افسانے کو ایک دوسرے میں آمیزکرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اپریل 1924میں ’’اہل مریخ سے گفتگو کا امکان‘‘۔ جنوری 1924 میں ’’جنگ کا نقشہ ایک صدی بعد‘‘ اور 1935میں ’’چاند کا سفر‘‘ ان کے وہ مضامین ہیں جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں، ان کے تجسس اور سائنسی رجحان رکھنے والے ذہن کا پتہ دیتے ہیں۔

اختر الایمان کی نظم کا ایک مصرعہ ہے کہ ’’خون پی پی کے پلا کرتی ہے انگورکی بیل‘‘۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انگورکی بیل کس طرح سینچی جاتی ہے لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ نیاز صاحب نے ’’نگار‘‘ کو اپنا خون جگر پلایا، تب ہی تو آج بھی اس کی سرسبز بیل ہماری دانشورانہ روایات پر چھائی ہوئی ہے اور اس کی خوشبو سے ادب دوست اور ترقی پسند  افراد کا ذہن معطر ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ نیاز صاحب کی نثرکا ڈنکا بجتا تھا۔ ان کے افسانے اور افسانچے ان کے ناولٹ اور انشائیے، مذہب اور سائنس کے بارے میں ان کی بحثیں، ٹیگورکی ’’گیتانجلی‘‘ کا ترجمہ، ان کی متنازع فیہ کتاب ’’من و یزداں‘‘ اور ان کا مرتب کردہ ’نگار‘‘ کا ’’خدا نمبر‘‘ اور ’’اصحاب کہف نمبر‘‘، وہ مطبوعات تھیں جن کی برصغیر کے علمی اور ادبی حلقوں میں دھوم تھی۔ان تحریروں میں اٹھائے جانے والے سوالات پر برسوں علمی بحثیں چلیں جن میں اس عہد کے مایہ ناز ادیبوں نے حصہ لیا۔

’’نگار‘‘ کے اجرا کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ نیازکا ذوق ابتدا سے ہی شعر وادب کا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ل۔ احمد اور سجاد حیدر یلدرم کی ’’انشائے لطیف‘‘ کی دھوم تھی۔ ترکی زبان سے متعدد تحریریں اردو میں ترجمہ ہورہی تھیں اور ترکی ادب کے اردو پر اثرات مرتب ہورہے تھے۔ اسی زمانے میں چند ادیب اور شاعر دوستوں کا اجتماع ہوا۔ گفتگو اس موضوع پر ہوتی رہی کہ ایک علمی اور ادبی پرچا نکلنا چاہیے جس کی سارے برصغیر میں دھاک بیٹھ جائے۔

کسی ایسے پرچے کی ادارت نیاز صاحب کی آرزو تھی لیکن گرہ میں دام کہاں تھے کہ یہ شوق پورا کیا جاتا۔ نیاز صاحب نے اپنے دوستوں کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ اگر بیس دوست ، بیس بیس روپے اکٹھے کرلیں اور چار سو روپے کی رقم جمع ہوجائے تو ایسا پرچا نکالا جاسکتا ہے۔ چار سو روپے کے ذکر پر حیران نہ ہوں کہ یہ زمانہ 1921کا تھا جب 20 روپے کا چندہ صاحبانِ حیثیت ہی دے سکتے تھے اور چار سو روپے ایک بڑی رقم سمجھی جاتی تھی۔

لیجیے صاحب، چند دنوں میں اتنی رقم تو اکٹھا نہ ہوسکی لیکن پھر بھی خاصے روپے جمع ہوگئے۔ یہ طے تھا کہ اس پرچے کی ادارت نیاز صاحب کریں گے چنانچہ ان سے کہا گیا کہ اب پرچے کا نام بھی تجویزکریں۔ ان دنوں نیاز صاحب ایک ترک شاعرہ ’’ نگار بنت عثمان‘‘ کے تراجم پڑھتے تھے اور سر دھنتے تھے۔ انھوں نے اسی شیفتگی کے سبب پرچے کا نام ’’نگار‘‘ تجویزکیا تو دوستوں نے اس پر صاد کیا۔ ان تیاریوں کے بعد نیاز صاحب تو آگرہ سے بھوپال چلے گئے اور وہیں سے پہلا پرچا مرتب کرکے دوستوں کے پاس آگرہ بھجوا دیا۔ کچھ عرصے تک پرچا بھوپال میں مرتب ہوتا اور آگرہ میں چھپتا رہا۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دن نہ چل سکا۔چنانچہ آخرکار پرچا بھوپال سے ہی شایع ہونے لگا۔کچھ برسوں بعد نیاز صاحب لکھنو منتقل ہوئے تو ’’نگار‘‘ بھی لکھنو میں آباد ہوگیا۔ نیاز صاحب نے کراچی کا رخ کیا تو ’’نگار‘‘ کو بھی  ترکِ وطن کرنا پڑا۔

کچھ لوگوں کی نظر میں ’’نگار‘‘ کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوسکتا ہے جس کا ذکر بھوپال کی پرنسس عابدہ سلطان نے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ اپنی کم سنی میں پرنسس عابدہ کو صرف دو پرچے پڑھنے کی اجازت تھی جن میں سے ایک ’’ہمایوں‘‘ تھا اور دوسرا ’’نگار‘‘۔ پرنسس نے نیاز صاحب کو دیکھا بھی نہیں تھا لیکن ان کی تحریروں کے سبب انھیں نیاز صاحب سے اتنی عقیدت ہوگئی تھی کہ جب ان کے صاحبزادے پرنس شہریار (سابق سفیر پاکستان متعینہ برطانیہ اورسابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ) کے لیے کسی اتالیق کی تقرری کا مسئلہ درپیش ہوا تو پرنسس عابدہ سلطان نے نیاز صاحب کا نام تجویز کیا لیکن جن وزیر صاحب کو اتالیق کی تقرری کا پروانہ جاری کرنا تھا وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ جب پرنسس عابدہ کی طرف سے اصرار بڑھا تو انھوں نے ’’نیاز‘‘ اور ’’نگار‘‘ دونوں کے بارے میں شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ پرنسس ’’نگار‘‘ کے بارے میں کیسے جانتی ہیں؟

پرنسس نے انھیں بتایا کہ وہ تو بچپن سے اس رسالے کا مطالعہ کرتی آرہی ہیں۔ وزیر موصوف نے حیرت سے پوچھا کہ لیکن ’’نگار‘‘ آپ تک پہنچتا کیسے ہے؟ پرنسس نے جواب دیا ’’ڈاک سے‘‘۔ وزیر موصوف نے بھڑک کر کہا ’’میں دیکھتا ہوں آج کے بعد ’’نگار‘‘ کیسے ریاست بھوپال میں داخل ہو سکتا ہے۔‘‘ پرنسس نے برہمی کا اظہارکیا اور بقول ان کے ’’میں نے کہا جو آپ سے ہوسکے وہ ضرورکیجیے اور اگر ’’نگار‘‘ بھوپال آنا بند ہوگیا تو میں موٹر پر جاکر دوسرے شہر سے لایا کروں گی‘‘ لیکن خیر نہ ’’نگار‘‘ ڈاک سے آنا بند ہوا اور نہ مجھے اس کے لیے دوسرے شہر جانا پڑا اور اسی ضد پر نیاز صاحب کو میں نے بطور مہمان بلاکے اپنے پاس رکھا تاکہ بھوپال میں ان کا داخلہ بند ہونے کی بھی آزمائش کرلی جائے۔‘‘

یاد رہے کہ پرنسس عابدہ سلطان ، والئ بھوپال ہز ہائی نس نواب حمید اللہ خاں کی صاحبزادی تھیں اور انھیں نیاز صاحب کے باب میں اپنے وزیر سے اس قدر بحث مباحثہ کرنا پڑا تھا تو سوچیے کہ عام گھروں میں نئے خیالات رکھنے والے نوجوانوں کو اپنے بزرگوں سے کیسی دشمنی مول لینی پڑتی ہوگی۔

میں اکثر سوچتی ہوں کہ جو مواد اس زمانے میں نگار میں شایع ہوا کیا وہ آج ہمارے ذرایع ابلاغ میں شایع ہوسکتا ہے، اگر نہیں توکیا یہ ایک عظیم المیہ نہیں ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔