پرانے پاکستان سے نئے پاکستان تک

عبدالرحمان منگریو  اتوار 25 اگست 2019

گزشتہ حکومت کے پانچ سال کے دوران ملکی نظام کومنجمد کرکے رکھنے والی پاکستان تحریک انصاف نے دھرنوں کے دوران سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے انھیں ملک کی بدحالی کا ذمے دار قرار دیا۔ انھوں نے موجود سیاسی رہنماؤں اور سیاسی کلچر کو بوسیدہ قرار دیا اور خود کو جدید خطوط پر استوار اور ایماندار قیادت کی حامل سیاسی جماعت قرار دیا اور داخلی و خارجی اُمور میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے ایسے دعوے کیے کہ لوگ آنکھوں میں خوشحالی کے سہانے خواب سجائے ’’تبدیلی آئی رے ‘‘ والی مرلی کے ساز پر ناچتے ہوئے اُن کے پیچھے چل دیے۔

عوام کو لگنے لگا کہ اب ملک سے غربت کا خاتمہ ہوگا ۔ عدل انصاف قائم ہوگا ۔ بدعنوانی اور اقربا پروری کا خاتمہ ہوگا ۔ کشمیر آزاد ہوگا ۔ افغانستان میں استحکام آئے گا اور پاکستان میں موجود افغانی باشندوں کو واپس اپنے ملک بھیجا جائے گا۔ ملک سے انتہا پسندی ، دہشت گردی اور مذہبی منافرت کا خاتمہ ہوگا۔ بین الصوبائی اُمور اور اُن کے فیصلوں میں ہم آہنگی اور برابری و سراسری کی فضا قائم ہوگی ۔ ملک میں تعلیم ، صحت کے شعبوں میں بہتری آئے گی ۔ ماحولی آلودگی کا خاتمہ ہوگا۔ ملک سیاسی ، معاشی و سماجی طور پر قائد اعظم کی خواہشات اور اُصولوں کے عین مطابق از سر نو تعمیرہوکر ایک مثالی ملک بن جائے گا ۔

مطلب کہ 1947میں کیے گئے جن وعدوں کی بنیاد پرپاکستان قائم ہوا تھا وہ سب کے سب پورے ہوں گے ۔ بالآخر 18اگست 2018کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بطور وزیر اعظم حلف لیا اور قوم سے خطاب میں انھوں نے وہی باتیں دہرائیں اور 100دن کا پروگرام دیا ۔ تب عوام دکھائے گئے سہانے خوابوں سے نکل کراُن کی تعبیر اور ایک لائین آف ایکشن کی Demandکرنے لگے ۔لیکن 100دن تو سو دن ، 365دن گذرنے کے بعد بھی اُن کا لائین آف ایکشن واضح نہیں ہوسکا ہے ۔

ملکی و عالمی سیاسی و انتظامی تجزیہ کاروں کے بقول کہ حکومت کی نیت پر کسی کو شک نہیں لیکن منصوبہ سازی اُن کے بس کی بات نہیں ۔ اس لیے حکومت نے 365دنوں میں 365سے بھی زیادہ یوٹرن لیے ہیں ۔ کے الیکٹرک کی خبر لینے والے اعلان پر عمل کرنے کے بجائے کے الیکٹرک کو ملک سے ہٹ کر اضافی نرخ رائج کرنے اور لینے کا لائسنس دے دینے والا یوٹرن تو کراچی والوں کو ابھی تک سمجھ نہیں آیا لیکن ایک کروڑ ملازمتوں والا یو ٹرن تو ایسا لیا کہ واپسی پر گاڑی کو بریک ہی نہیں لگ رہے ۔

کے پی کے میں گذشتہ 6سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کے باوجودترقی و تعمیر کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں اب تک میٹرو بس منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا ، تعلیم کی صورتحال یہ ہے کہ آج بھی بچوں کو مدارس کے نظام کے سپرد کیا ہوا ہے ۔ صحت کی صورتحال یہ ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ پولیو کیسز کے پی کے میں ہیں ، جب کہ ایک بھی اسپتال عالمی سطح کا تو چھوڑیں دیگر صوبوں میں موجود اسپتالوں جیسا بھی نہیں ہے ۔

روزگار کی صورتحال یہ ہے کہ آج بھی روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں لوگ وہاں سے سندھ میں روزی روٹی کی تلاش میں آتے ہیں ۔ کشمیر ایشو اورحکومت کی بھارت دوستی کے موقف پر اعتراض کے بعد عمران خان کی کرتارپور راہداری کی تعمیراور ابھے نندن کو بلاکوئی جنگی معاہدے یا مذاکرات کے آزاد کردینے والے یوٹرن کی بات ہو ۔

نواز حکومت کے دوران ملک میں 5روپے پٹرول کی قیمت بڑھنے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے والوں نے اپنے حکومتی ایک سال کی قلیل مدت میں 45روپے سے زیادہ کا اضافہ کردیا ، گیس و بجلی کے نرخوں اور لوڈ شیڈنگ پر نواز حکومت کے خلاف دھرنے سجانے والے عمران خان نے اپنے ایک سال میں5مرتبہ نرخ بڑھاکر 200فیصد کرنے جیسا یوٹرن بھی لیا ہے ۔ ان کی میتھا ڈولوجی (Methodology) دیکھ کر لوگ اب ’’جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘‘ کی روایت کو چھوڑ کر ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفاہوجائے ‘‘ والی Theoryکو اپنانے کی طرف گامزن ہیں ۔

1947میں قیام ِ پاکستان ، پھر 1971میں باقی ماندہ پاکستان کے بعد پی ٹی آئی کے نیا پاکستان والی Termنے بڑی دھوم مچائی ہے ۔ لیکن ملک کے عوام کی حالت ابتک بہتر نہیں ہوئی بلکہ مزید بدتر ہوتی چلی جارہی ہے ۔ اوورسیز پاکستانیوں سے معاشی کمزوری کی دہائی دیکر چندہ و ٹیکس وصولی ، پھر ڈیم کے نام پر بھتے کی طرح چندہ وصولی کے بعد اب صفائی کے نام پر چندہ وصولی۔ کیا یہی ہے وہ ’نیا پاکستان ‘، جس کے لیے 5سال عوام کو دھرنوں میں الجھائے رکھا گیا اور ایک سال سے مہنگائی سے نچوڑا جارہا ہے ؟ پھر عوام کو مزید مہنگائی کی دھمکیاں دینا اور انھیں ٹیکس ، بجلی و گیس چور کے طعنوں و تبروں سے چھلنی کیا جارہا ہے ۔ یعنی عوام اس وقت چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں ۔ انھیں سمجھ نہیں آرہا کہ وہ اپنی لائی ہوئی حکومت کے ان اقدامات کا خیرمقدم کریں یا پھر مزاحمت ۔ اور وہ حواس باختہ ہیں کہ یہ ہم نے کیا کردیا ۔۔!

دھرنوں کے دوران سب سے زیادہ شورشرابا سابقہ حکومت کے جن اُمور پر برپا کیا گیا اُن میں انتخابات میں دھاندلی ، کرپشن ، معاشی اُمور اور مہنگائی سب سے اہم تھے ۔ کرپشن کی جہاں تک بات ہے تو حکومت نے آتے ہی نیب کو فعال کرکے سابقہ حکومتوں میں رہنے والی جماعتوں کے خلاف پکڑ دھکڑ اور کیسز و ریفرنسز کو تیز کردیا ۔ پھر اُن میں سے جو حکومتی جماعت کی طرف آیا وہ سمجھو دودھ و آب ِ زم زم سے دھل کر پاک و صاف ہوگیا جب کہ باقی کو یا تو زیر حراست لے لیا گیا ہے یا پھر وہ ضمانتوں پر مجبور ہیں ، لیکن اُس کے باوجود کرپشن پر ضابطہ نہیں آسکا ہے ۔

ٹریفک سارجنٹ کے رشوت لینے سے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی ڈیوٹی پر عدم دستیابی تک ملک میں پھیلی کرپشن کوعوام آج بھی بھگت رہے ہیں ۔ پھر دیکھا جائے تو کرپشن صرف پیسوں کی نہیں ہوتی بلکہ اقربا پروری اور فضول خرچی بھی اسی کاحصہ ہے۔ احتساب کے نام پر صرف ملک کی جمہوری قیادت اور مخصوص بیورو کریسی کی دھڑا دھڑ گرفتاریاںو نیب پیشیاں ۔اس سے ایک طرف ملک میں غیر یقینی کی صورتحال انتہائی تشویش ناک صورت اختیار کرچکی ہے ۔ جوکہ ملک کی پہلے سے تباہ شدہ معیشت کو مزید تباہ و برباد کردے گی اور دوسری طرف ملکی انتظامی اُمور منجمند ہوکر رہ گئے ہیں ۔ ملک کے کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے مطلوب اختیاراتی Willختم ہوکر رہ گئی ہے ۔ کوئی بھی اتھارٹی لینے کو تیار نہیں ۔ جس سے ادارے سرکاری کام کے بجائے افسر شاہی کے وقت گذاری کی جگہ بن کر رہ گئے ہیں۔

اس بات کا ادراک اب خود پی ٹی آئی سرکار کو بھی ہوگیا ہے اوروہ نیب قانون میں ترمیم کرنے جارہی ہے لیکن کہتے ہیں ناں کہ ’’بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے ‘‘ کی مصداق پی ٹی آئی کے اس فیصلے میں تاخیر کے باعث ملک کے انتظامی اُمور اور بیوروکریسی میں ایسی الجھنیں اور خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں جنھیں دور کرنے میں شاید بہت سماں لگ جائے گا ۔ پھر اگر ترمیم کی بھی جارہی ہے تو صرف افسر شاہی کو چھوٹ دینے کے لیے جب کہ سیاسی لوگوں بالخصوص سیاسی قیادت کے لیے گھیرا مزید تنگ ہونے کی بات ہورہی ہے ۔جس سے ملک میں جمہوری حکومت کا کردار ہی ختم ہونے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے یعنی ملک موجودہ نیم جمہوری نظام سے مکمل افسر شاہی آمریتی نظام کی آماجگاہ بن کر رہ جائے گا۔

حکومت کی اہلیت کی جہاں تک بات ہے تو پہلے ہی بجٹ پیش کرنے میں اہلیت پر انگلیاں اُس وقت اُٹھیں جب پارٹی کا رول ماڈل وزیر قرار دیے گئے اسد عمر سے فنانس کا محکمہ واپس لے کر پارٹی کے باہر کے آدمی حفیظ شیخ کو دیکر بجٹ اُس کی نگرانی میں تیار کیا گیا ۔ جس کی ماضی کی کارکردگی پر پہلے ہی سوالیہ نشان خود عمران خان لگا چکے تھے ۔ پھر شاہ محمود قریشی ، فردوش عاشق اعوان سمیت اکثر کابینہ اراکین بھی دیگر جماعتوں سے نکلے ہوئے پرانے پاکستان کی حکومتی کابینہ کے رکن رہے ہیں ۔ اب بھلا پرانی لیبر ، پرانے مٹیریل اور پرانی پالیسیوں سے نیا پاکستان کیسے بن سکتا تھا ۔حالانکہ ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے ’’احساس ‘‘ کے نام سے پروگرام کا آغاز ایک اچھی اور مثبت بات نظر آئی لیکن یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ۔

ماضی میں نواز اور زرداری دور میں بے نظیر انکم سپورٹ اور چھوٹا یا اپنا روزگار اسکیم اور زکوٰۃ، بہرحال کسی نہ کسی صورت میں یہ کام پرانے پاکستان میں بھی جاری رہے ہیں ، انھوں نے صرف نام نئے دیے ہیں باقی کام وہی پرانے ہیں ۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ دھرنوں اور انتخابی مہم کے دوران کے اعلانات اور حکومت کے قیام سے شروع ہونے والا نیا پاکستان ایک سال کا سفر کرکے جس شاہراہ پر چل رہا ہے وہ پرانے پاکستان کی طرف رواں ہے ۔ اس شاہراہ پر صرف سائن بورڈز نئے لگائے جارہے ہیں ۔ جن میں سے کسی پر ’احساس پروگرام ‘ تو کسی پر ’شیلٹر ہوم‘ ، اور کسی پر ’سستے گھر‘ تو صحت کارڈ اسکیم پر’صحت انصاف کارڈ‘ لکھا نظر آتا ہے۔

لے دے کر ایک اچھی اور نئی چیز ای ویزا پالیسی کا فعال ہونا نظر آتا ہے جس کے تحت دنیا کے کاروباری افراد کو پاکستان آنے سے قبل ای میل کنفرمیشن اور پاکستان پہنچنے پر ایئرپورٹ پر ہی دستاویزی ویزہ جاری کیا جانا ہے ۔ اس پروگرام میں فی الحال تو پانچ ملک چین، ملائیشیا ، ترکی ، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات رکھے گئے ہیں لیکن اسے آیندہ چھ ماہ میںوسعت دیکر 50ممالک اور آیندہ سال تک 170سے زائد ممالک تک بڑھانے کا پروگرام ہے ۔ یہ اس لیے بھی خوش آیند قدم ہے کہ اس سے ملک میں افراط ِ زر ، زر ِ مبادلہ کے ذخائر میں بہتری اور کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہونے کی اُمید ہے ۔

بنیادی سہولیات کسی بھی معاشرے یا ملک کی بہترین و بدترین شناخت بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی حکومت کا ایک سال عوام کے لیے بدترین سال رہا ہے کیونکہ بجلی کم بل زیادہ ، گیس کی لوڈ شیڈنگ اور نرخوں میں اضافہ ، کمائی کم ٹیکس زیادہ ، علاج کم اسپتالیں زیادہ ،ملک میں یکساں ، جدید و معیاری تعلیم کا وعدہ تھا لیکن معیار ِ تعلیم و اسکول کم اور مدارس زیادہ اور سب سے بڑی بات کام کم اور باتیں زیادہ والی موجودہ صورتحال میں گورننس پر آخر انگلیاں تو اُٹھیں گی ہی ۔

پھرحکومت کے ٹیکس ریفارمز کی وجہ سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو انکم ٹیکس کے ساتھ ساتھ بالواسطہ محصولات کی مد میں ماہانہ آمدن میں سے اضافی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑے گا ، جب کہ خریداری پر شناختی کارڈ کی کاپی اور دکانوں پر چھاپوں و موجود مال کی اچانک پوچھ گچھ کے ماحول سے مارکیٹ تناؤ و دباؤ کا شکار ہوچکے ہیں ۔ اس سے مارکیٹ میں پیسے کی ریل پیل رک گئی ہے ، جوکہ بیروزگاری اور غربت میں اضافے کا باعث بن رہی ہے ۔ اور کہتے ہیں کہ غربت اور بیروزگاری معاشرے میں ہزاروں خرابیوں کی ماں ہوتی ہے اور اگر نیا پاکستان بنانا ہے تو پرانے پاکستان کی خرابیوں کو ختم کر کے بن سکتا ہے نا کہ پاکستان کو ختم کر کے ۔۔۔!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔