تعمیر میں مضمر خرابی

سعد اللہ جان برق  جمعرات 29 اگست 2019
barq@email.com

[email protected]

ہماری اپنی معلومات تو انتہائی محدود ہیں یعنی صرف اخباروں،اشتہاروں اور دیواروں پر مبنی ہیں۔صاف صاف یوں کہیے کہ پینڈو تھے پینڈو ہیں اور پینڈو ہی رہیں گے،کیونکہ اس آخری عمر میں کیا خاک’’شیرواں‘‘یانوشیرواں ہوں گے۔

لیکن سنتے ہیں سنتے رہتے ہیں کہ’’بنیادیں‘‘ڈال دی ہیں اور اب نیا پاکستان تعمیرہونے سے کوئی نہیں روک سکتا یہاں تک کہ پرانا پاکستان بھی اسے تعمیر ہونے سے نہیں روک سکتا۔اب یہ بنیادیں کہاں ڈال دی ہیں کیسے ڈال دی ہیں کس لمبائی چوڑائی میں ڈال دی ہیں اس کا اصل پتہ تو بنیادیں ڈالنے والوں کو ہی ہوگا۔ لیکن ’’بنیادوں‘‘کے بارے میں ہماری جو پرانی معلومات ہیں ان میں ایک تو یہ ہے کہ

خشت اول چوں نہد معمارکج

تاثر یا می رود دیوار کج

اور دوسری بات تاریخی نوعیت کی ہے یہ مغلیہ دور کے معمار اور کنسٹرکشن کے شوقین بادشاہ شاہ جہان کے دور کی بات ہے کہ اس نے جب دہلی میں لال قلعہ کے سامنے جامع مسجد بنانے کا منصوبہ لانچ کیا تو اپنے معمار سے کہا کہ مجھے ایک سال کے اندر اندر مسجد تیار ملنی چاہیے معلوم نہیں وہ معمار کون تھا۔

کیونکہ یہ رواج پرانے زمانوں سے چلا آرہا ہے کہ کسی تعمیر کرنے والے یا والوں کی جگہ ’’بدست جناب‘‘ کی تختی لگائی جاتی ہے۔خلیل جبران نے ایک پل کی تعمیر کا ذکر کیا ہے جو کسی دریا پر کسی’’بدست جناب‘‘کے دور میں تعمیر کیاگیاتھا اور اس کی تعمیر میں پندرہ گدھوں اور آٹھ انسانوں کی جانیں بھی چلی گئی تھیں لیکن تختی پر صرف بادشاہ کے نام کی تختی لگائی گئی تھی جس نے یہ پل کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔ خیر ہوسکتا ہے کہ شاہ جہان کا یہ مسجد والا معمار بھی وہی علی مردان ہو جس نے تاج محل کو تعمیر کیا تھا۔

بادشاہ نے جب ایک برس میں مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا تو معمار غائب ہوگیا۔بادشاہ اور اس کے اہلکار ڈھونڈتے رہ گئے لیکن معمار کا کوئی ویراباوٹ نہیں ملا پورا ایک سال گزرگیا۔تو اچانک کہیں سے نکل آیا۔وہ تو اس کی قسمت اچھی تھی کہ شاہ جہان اپنے بیٹے اورنگ زیب رحمتہ اللہ علیہ پر نہیں گیا تھا۔ورنہ سر پہلے اڑاتا اور پوچھتا بعد میں کہ کہاں غائب ہوگئے تھے؟

اس لیے معمار کو مہلت ملی اور اس نے جان کی امان پاؤں کا ڈائیلاگ پورے کا پورا ادا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اور پھر عرض کیا کہ تعمیراتی نکتہ نظر سے بنیادوں کو پکا کرنے کے لیے ایک سال کی مدت درکار ہوتی ہے اور آپ نے فوری طور پر ایک سال میں مسجد تیار کرنے کا حکم دیاتھا اس لیے غائب ہونے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اب بنیادیں استوار ہوگئی ہوں گی اور مسجد کی تعمیر کے لیے مناسب۔ہم نے یہ مسجد دیکھی ہے بلکہ کئی روز اس میں دھوپ سینکی ہے واقعی شاہکار ہے۔

اب اگر تعمیر کا اصول وہی ہے تو بنیادیں جو ڈال دی گئی ہیں اور وہ چونکہ کسی ایک عمارت کی نہیں پورے ملک کی بنیادیں ہیں جو ڈال دی گئی ہیں اس لیے کم ازکم پانچ عمارتوں کی مدت…یعنی ’’بنیادیں ڈال دی گئی ہیں‘‘ کے بعد کم ازکم پانچ سال تو ضرور درکار ہوں گے’’بنیادیں ڈال دی گئی ہیں‘‘کے بعد

ہم نے اک اینٹ پہ تعمیر کیا تاج محل

تم نے اک بات کی اور لاکھ فسانے نکلے

تعمیرات کے کام کے بارے میں ہماری معلومات زیادہ نہیں ہیں صرف یہی ایک تاریخی واقعہ سنا تھا جو عرض کیا۔باقی بنیادیں جانیں اور بنیادیں ڈالنے والے۔لیکن ایک واقعہ اور یاد آرہاہے،وہ بھی اگرچہ تاریخی ہے اور اسی شاہ جہان کے ماسٹرپیس تاج محل سے تعلق رکھتاہے۔

لیکن تھوڑا سا اختلافی ہے۔تاج محل کی تعمیر کے وقت پورے ملک میں شدید قحط سالی ہوگئی تھی شکر ہے ہمارے’’تاج محل‘‘کی ’’بنیادیں‘‘ڈال دی گئی ہیں‘‘ کے موقع پر قحط سالی نہیں ہے لیکن دوسری سالی یعنی مہنگائی کو بھیج چکی ہے۔جب ہم نے تاج محل کی سیر کی تو بس میں واپسی پر اندور کے ایک بزرگ شاعر سے ملاقات رہی۔بزرگ نے ساحرلدھیانوی کو آڑے ہاتھوں اور سیدھے پاؤں لیتے ہوئے فرمایا کہ اس سرخے نے تاج محل اور شاہ جہان اور مسلمانوں کی سخت توہین کی ہے یہ کہہ کر کہ

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

ساحرلدھیانوی کی اچھی طرح کلاس لینے اور اس کے اس جرم کی اچھی طرح مذمت کرتے ہوئے کہا لیکن اپنے شکیل بدایونی نے کیا دندان شکن جواب دیاہے کہ

اک شہنشاہ نے بنواکے حسین تاج محل

ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے

پھرشاہ جہان کا دامن ہمارے نیب ٹائپ کے واشنگ پاؤڈر سے دھوتے ہوئے فرمایا کہ دراصل اس وقت قحط سالی تھی اس لیے شاہ جہان نے لوگوں کو روزگار اور روزی روٹی فراہم کرنے کے لیے تاج محل اور دیگر تعمیرات کی’’بنیادیں‘‘ڈال دی تھیں۔

ہم سمجھ گئے کہ بزرگ موصوف اندور کے ہوتے ہوئے بھی اندور کے پکے مسلمان اور پاکستانی مورخ تھے جو جھوٹ کو سچ سے بھی زیادہ قوت سے بول رہے تھے لیکن ہم بھی مجبور تھے کہ انھوں نے ہمیں آگرہ کے’’پپیتے‘‘اور متھرا کے پیڑے جی بھر کرکھلائے تھے۔

جس نے ہمارے ہونٹوں پر ’’زپ‘‘ لگایا ہوا تھا۔کیونکہ قحط سالی تاج محل تعمیر ہونے کے بعد آئی تھی اور اس کی وجہ تاج محل کی تعمیر ہی تھی کیونکہ یہ بڑا وسیع اور لمبا پراجیکٹ تھا بہت دور دور سے سنگ مرمر کے پتھر لانا تراشنا وغیرہ جو مشکل کام بھی تھا محنت طلب بھی اور افراد طلب بھی چنانچہ شاہ جہان نے بہت ہی پرکشش اجرتوں کے لیے ان خزانوں کے منہ کھول دیے تھے جو اس کے اجداد سمرقند بخارا سے ’’اپنے ساتھ‘‘ لائے تھے یا بہار ہندوستان میں ’’محنت مشقت‘‘کرکے جمع کرچکے تھے چنانچہ ٹھیک آج کی طرح پرکشش مزدوری نے’’افراد‘‘کو کھینچ لیا جس کی وجہ سے کھیت کلیان اجڑگئے اور نتیجہ قحط سالی کی صورت میں نکلا۔

اور یہی خطرہ ہمیں اب بھی دکھائی دے رہاہے جس رفتار سے ’’تعمیرات‘‘زمین اور زمین داروں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں زمینوں کی قیمت،شاہی دولتوں،مڈل مین کے استحصال اور حکومت کی مہربانیوں سے اچھی خاصی مل رہی ہے تو پھر کسان کو زراعت چھوڑنے کے علاوہ اور کونسا راستہ دکھائی دے گا۔ بہرحال کل ملاکر بات یہ بنی کہ ’’بنیادیں ڈال دی ہیں‘‘ لیکن کس چیز کی یا کس عمارت کی؟لگتا تو ایسا ہی ہے کہ شاید ’’قحط سالی‘‘کی۔جس کی پہلی والی ’’سالی‘‘عرف مہنگائی نے آکر روپے اور کسان کی قیمت دو ٹکے کی، کی ہوئی ہے کیونکہ بنیادیں جو ڈال دی ہیں

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

’’ہیولیٰ‘‘برق خرمن کا ہے خون گرم’’دہقان‘‘کا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔