کھرب پتی مافیا اور بے بس حکومت!(2)

علی احمد ڈھلوں  بدھ 4 ستمبر 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

جیسا کہ کل کے کالم میں عرض کیا تھا کہ ہم 1977 کے بعد بتدریج کرپٹ ہوتے گئے، ہر ادارے میں سیاست نے جگہ بنائی اور بعد میں آنیوالے سیاستدانوں نے تو باقاعدہ اپنے من پسند افراد کو نہ صرف منافع بخش اداروں میں ’’داخل ِدفتر‘‘ کیا بلکہ اُنکے ذریعے میرٹ کی دھجیاں بھی بکھیر دی۔ ہر سیٹ کی ایک قیمت ادا کی گئی، بیوروکریسی میں ایسے ایسے بدنام زمانہ لوگوں کو چن چن کر لگایا گیا جنھوں نے ہر ادارے کو برباد کر دیا۔

تبھی تو آج گریڈ ون سے لے کر گریڈ 22تک کم و بیش ہر سرکاری ملازم کا اپنا ایک طے شدہ ریٹ ہے۔عوام چیختے رہے، بلبلاتے رہے کہ ان اداروں کو بچا ؤ مگر ہر بار عوام کو رام کرنے کے لیے یا اُن سے جان چھڑانے کے لیے فوراً ایک کمیٹی قائم کردی جاتی ۔ یہ جانے بغیر کہ مسئلہ کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس کا حل کیسے کیا جاسکتا ہے؟ ہر بار ایک نئی کمیٹی تشکیل دے دی جاتی۔

جس میں میں عہدے کے حصول کے خواہشمند افراد شامل ہوتے ہیں اورمیٹنگز کالامتناہی سلسلہ شرو ع ہوتا ہے اور پھر کسی حدتک تیسرے مسئلہ کے شروع ہوجانے پر دب جاتا۔ یوں پہلا مسئلہ اپنی جگہ پر ہی رہتا ہے کہ اگلے مسئلے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی جاتی اور مسائل کے انبار کے ساتھ ساتھ کمیٹیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتاچلاجاتا ہے جو یقینی طور پر معیشت پر مالی بوجھ کی وجہ بنتا رہا۔ لہٰذاآج ان کمیٹیوں کی تعداد زیادہ نہیں تو کم از کم 300کے قریب ہے ، جو Fact Finding کے نام پر فنڈز سمیٹ رہی ہیں۔

حکومتوں کی اسی متنازعہ اور غیر سنجیدہ رویوں کی وجہ سے ہمارے ہاں کرپشن، دہشتگردی، تجاوزات و قبضہ گروپ کلچر، پانی کی کمی، بے لگام بڑھتی آبادی، ملاوٹ، جنگلات کا صفایا، تعلیمی اداروں کا انحطاط وغیرہ جیسے مسائل نے جنم لیا اور اگر کوئی بیورکریٹ یا مقامی سطح کا لیڈر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھتا تو کھرب پتی مافیا اُس کے ہاتھ کاٹنے کا سوچنا شروع کردیتا ہے کیونکہ اس مافیا کو اپنا خطرہ لاحق ہو جاتا ۔ قارئین!ان میں سے کوئی ایک واردات، حادثہ یا سانحہ اچانک یا اوور نائٹ نہیں ہوا۔ چھوٹی چھوٹی پھنسیاںہماری مجرمانہ غفلت کے باعث ناسوروں میں تبدیل ہوتی گئیں ۔

خیر کھرب پتی مافیا کے سامنے اداروں کی بے بسی کی بات چل نکلی تھی تو اگر احتسابی اداروں کی بات کی جائے تو اس مافیا کے سامنے یہ ادارے بے بس نظر آتے ہیں ۔ تبھی تو ایک روپیہ بھی ریکور نہ ہونے کے باوجود NROکی بازگشت سن رہے ہیں، واللہ علم یہ باتیں حکومت پھیلا رہی ہے یا اپوزیشن لیکن ہمیں یہی علم ہے کہ عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آنیوالا۔ حد تو یہ ہے کہ کرپشن کی دلدل میں پھنسے یہ چنے منے کرپٹ سیاستدان پکڑے جائیں تو جیل سے سیدھا اسپتال روانہ ہو جاتے ہیں، ان کی دل کی بیماریاں بھی بس نیت کی خرابی ہی نکلتی ہیں۔

تعجب ہے ڈھٹائی، بے رحمی اور دیدہ دلیری سے ملکی دولت اور وسائل کو لوٹنے والے زیر عتاب آتے ہی بیماریوں میں کیوں گھر جاتے ہیں۔ جو ہاتھ لوٹ مار اور مار دھاڑ کرتے نہیں چوکتے جیل جاتے ہی انھی ہاتھوں پر رعشہ کیوں طاری ہو جاتا ہے۔ بے رحمی اور سنگدلی سے عوام کے پیسے پر کنبہ پروری اور سیر سپاٹے کرتے وقت تو کبھی ان کا دل نہیں ڈوبا اور نہ ہی کبھی ان پہ کوئی گھبراہٹ طاری ہوئی۔ کبھی ان کا دل گھبرایا اور نہ ہی کبھی طبیعت خراب ہوئی۔ طبیعت خراب بھی کیسے ہوتی؟ اس وقت تو نیت کی خرابی ہی ساری خرابیوں پر بھاری تھی۔ یہ انھی کی کارستانیاں ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ دس سالوں میں سرکاری اداروں کی مجموعی کرپشن 20ہزار ارب روپے تک پہنچی ،۔ لیکن مجال ہے کہ ایک روپیہ بھی ان سیاستدانوں سے ریکور کرایا جاسکا ہو۔

اب اگر بات کی جائے بڑے سرکاری اداروں پی آئی اے، ریلوے یا پاکستان اسٹیل مل کی تو ان اداروں نے قوم کو مایوس کیا ہے، 15جہازوں والی ایئر لائن میں 14ہزار ملازم رکھے گئے ہیں (ان میں سے کم و بیش 3700سیاسی بھرتیاں ہیں)، ریلوے کے کل ملازمین کی تعداد ایک لاکھ کے قریب جب کہ پٹریوں پر دوڑتی ٹرینوں کی تعداد محض 202 ہے، اسی طرح زیرو پروڈکشن کے ساتھ پاکستان اسٹیل مل کے ملازمین کی تعداد بھی 6ہزار کے قریب ہے اور یہ تینوں ادارے مل کر قومی خزانے کو ایک سال میں 700ارب روپے کا چونا لگاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ماضی میں یہ تینوں ادارے ملک کے لیے منافع بخش تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہوتے گئے۔

ایف بی آر کی بات کر لیں ، پہلی بات تو یہ ہے کہ ایف بی آر کو اپنے اعدادو شمار درست کرنے کی ضرورت ہے ، ایف بی آر والے فرماتے ہیں کہ ’’22کروڑ آبادی میں سے 20لاکھ ٹیکس دہندگان ہیں۔‘‘یہ لوگ جس 22کروڑ کا ذکر کرتے ہیںاس میں تقریباً 51فیصد تو خواتین بلکہ ’’خواتین خانہ‘‘ ہیں۔ بچوں، ٹین ایجرز، بیروزگاروں، بوڑھوں، بیماروں وغیرہ وغیرہ کو نکال دیا جائے تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟

اس لیے 22کے بجائے 3،4کروڑ کہہ لیا کریں تو وہ زیادہ بہتر ہو گا۔ خیر اس قدر کم ٹیکس دینے والوں کی شرح مایوس کن کیوں ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کیونکہ 80 کی دہائی میں ٹیکس دھندگان کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ حکومت کو ’’اوپر‘‘ کے بیسیوں ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی پھر ایک ’’بابو‘‘ اقتدار میں آیا تو اُس نے یہ طریقہ نکالا کہ جو کمپنی یا مل قرض میں مبتلا پائی جائے وہ ٹیکس گوشوارے تو جمع کرائے گی مگر انکم ٹیکس نہیں دیگی۔

یہ طریقہ اس قدر مشہور ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے بینکوں سے قرض لینے والوں کی لائنیں لگ گئیں(جوبعد میں کسی نہ کسی طرح معاف بھی کرائے جاتے رہے) اور اس طرح دنیا نے دیکھا کہ ہم نے خود جواز فراہم کیا کہ کس طرح ٹیکس چوری سے بچا جا سکتا ہے پھر آج کے دور میں روپے پیسے کو چھپایا جانے لگا اور آف شور کمپنیاں وجود میں آئیں (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔