بلوچستان عوامی پارٹی کی ملک گیر فعالیت کیلئے اقدامات شروع

رضا الرحمٰن  بدھ 4 ستمبر 2019
سینئرقیادت کی جانب سے ذمہ داری ملنے کے بعد میرجان محمد جمالی نے پارٹی کو نچلی سطح سے منظم و فعال کرنے کا آغازکردیا ہے۔

سینئرقیادت کی جانب سے ذمہ داری ملنے کے بعد میرجان محمد جمالی نے پارٹی کو نچلی سطح سے منظم و فعال کرنے کا آغازکردیا ہے۔

کوئٹہ:   بلوچستان میں برسراقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو ملکی سطح پر متعارف کرانے کیلئے باقاعدہ عملی اقدامات شروع کردیئے گئے ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کی سینئر قیادت نے اتفاق رائے سے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان و سابق اسپیکر اور موجودہ رکن صوبائی اسمبلی میر جان محمد جمالی کو پارٹی کا مرکزی چیف آرگنائزر مقرر کرتے ہوئے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ و ہ پارٹی کو ملک گیر سطح پر فعال اور منظم بنانے کیلئے اقدامات کریں۔

چنانچہ پارٹی کی سینئر قیادت کی جانب سے ذمہ داری ملنے کے بعد میر جان محمد جمالی نے پارٹی کو نچلی سطح سے منظم و فعال کرنے کا آغاز کردیا ہے اور ڈسٹرکٹ سطح پر پارٹی کے عبوری عہدیداران کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے جس کے بعد اس کا دائرہ صوبائی اور پھر ملکی سطح تک بڑھایا جائے گا ۔

یہ اطلاعات بھی ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا سے مزید سینیٹرز اور ارکان اسمبلی بھی آئندہ چند روز میں بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں ۔ اسی طرح سندھ اور پنجاب میں بھی رابطے کئے جا رہے ہیں ۔ جبکہ ملک بھر میں بلوچستان عوامی پارٹی کے بڑے بڑے عوامی اجتماعات کا بھی پروگرام ہے پارٹی کا نام بھی تبدیل کیا جا رہا ہے۔

بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نئی سیاسی جماعت کو ملک گیر سطح پر متعارف کرانے کا پروگرام ایک مشکل ٹاسک ہے لیکن نا ممکن نہیں کیونکہ عوام بڑی سیاسی جماعتوں کے دعوئوں اور رویوں سے تنگ آگئے ہیں ملک میں تبدیلی لانے کی دعویدار جماعت تحریک انصاف سے بھی عوام مایوس ہوگئے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی اپنے مضبوط منشور کے ساتھ اگر آگے آتی ہے تو اسے عوام میں پذیرائی مل سکتی ہے اس کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی کی صوبے میں کارکردگی کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔ان سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں برسراقتدار جماعت بی اے پی کو اپنی اُڑان کیلئے کافی محنت کی ضرورت ہے کیونکہ گزشتہ ایک سال کے دوران بی اے پی حکومت اُس طرح کارکردگی نہیں دکھا سکی جو وعدے انتخابات میں کئے گئے تھے۔

نئے صوبائی بجٹ کے بعد حکومت کی طرف سے کچھ مثبت سرگرمیاں دکھائی دے رہی ہیں اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال جو کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی صدر بھی ہیں نے صوبے میں ترقی کا ایک وژن دیا ہے جس پر کام کا آغاز تو ہوگیا ہے لیکن سست روی کا شکار ہے اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔

بلوچستان میں بی اے پی کی کامیابی ہی آگے چل کر اسے ملکی سطح پر بھی سپورٹ دے گی اور اس جماعت کو عوامی سطح پر اس بنیاد پر پذیرائی مل سکتی ہے ورنہ ماضی میں جس طرح سے دیگر نئی بننے والی سیاسی جماعتوں کا حشر ہوا ہے عوام نے انہیں مسترد کردیا اسی طرح اس نئی جماعت کا حال بھی مختلف نہیں ہو سکتا۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر پارٹی کی سینئر قیادت کو آگے بڑھنا ہوگا اور اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ ملکی سطح پر عوام میں اس کی جڑیں مضبوط کرنے میں وقت لگے گا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال کو موجودہ حالات میں اندرونی طور پر کافی تنقید اور مشکلات کا سامنا ہے ان کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے دبے الفاظ میں تنقید کی جا رہی ہے۔

اُن کی جماعت کے ایک وزیر سردار سرفراز ڈومکی مستعفی ہوگئے ہیں اور وہ حکومت کے خلاف وائٹ پیپر لانے کا دعویٰ کر رہے ہیں اسی طرح قومی اسمبلی کے رکن محمد اسلم بھوتانی جو کہ وزیراعلیٰ جام کمال اور بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل کو لسبیلہ گوادر کی نشست پر شکست دے کر کامیاب ہوئے ہیں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال خود بھی کام نہیں کرتے اور ہمیں بھی کام کرنے نہیں دیتے، ہم سے سیاسی اختلافات کی بناء پر انہوں نے علاقے کے عوامی فنڈز روک دیئے ہیں وزیراعلیٰ جام کمال کو جن اسکیمات پر تحفظات ہیں وہ ان کو چھوڑ کر باقی فنڈز تو ریلیز کردیں۔

اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ میرے بڑے بھائی سردار صالح بھوتانی جو کہ جام کمال کی کابینہ میں وزیر بلدیات ہیں نے گڈانی پل کیلئے ڈیڑھ کروڑ روپے منظور کرائے تھے وزیراعلیٰ نے اس پر کام رکوا دیا ہے۔ ایسی ہی شکایت جام کمال کی اتحاد ی جماعت تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کی ہے جس میں اُنہوں نے برملا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال ہمیں کسی بھی معاملے میں اعتماد میں نہیں لے رہے ہم ترقی دینے والے سردار ہیں ترقی کے مخالف نہیں۔

اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ پارٹی کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین بلوچستان کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں اور جہانگیر ترین نے ہی بلوچستان میں ہماری حکومت نہیں بننے نہیں دی حالانکہ ہم اس پوزیشن میں تھے اور ہم سے مختلف سیاسی جماعتوں نے رابطہ بھی کیا تھا کہ ہم حکومت بنا سکتے تھے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ایسی صورتحال میں وزیراعلیٰ جام کمال کو چاہیے کہ جب وہ اور ان کی جماعت ملکی سطح پر سیاست کرنے جا رہے ہیں تو انہیں اپنے رویئے میں مثبت تبدیلی لانا ہوگی اپوزیشن جماعتوں سمیت سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور دل کو بڑا کرنا ہوگا۔

دوسری جانب جمعیت علما اسلام (ف) کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفنرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان کو دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہوگئی ہے لہٰذا ہم نے اسلام آباد مارچ کی تیاریاں شروع کردی ہیں ہمارے ساتھ اﷲ ہے ہمیں کسی ایمپائر کی ضرورت نہیں جہاں ہمیں روکا گیا ہم وہاں ہی دھرنا دیں گے۔

سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان سمیت ملک بھر میں جے یو آئی (ف) نے اسلام آباد مارچ کیلئے عوامی رابطہ مہم کا آغاز بھی کردیا ہے بلوچستان میں پارٹی کے صوبائی امیر اور رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع سمیت دیگر عہدیداران اور پارلیمنٹرینز نے مختلف اضلاع کے ہنگامی دوروں کا آغاز کر رکھا ہے، ان سیاسی حلقوں کے مطابق جے یو آئی (ف) کی مرکزی کال پر بلوچستان سے ہزاروں لوگوں پر مشتمل قافلے اسلام آباد روانہ ہونگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔