پاکستان اور افغانستان کے درمیان آبی تقسیم

جمیل مرغز  جمعـء 6 ستمبر 2019

’’گلگت بلتستان میں دیوسائی سے کالا پانی اور چھوٹا پانی کے نام سے دو دریا بھارت جاتے ہیں۔جس مقام پر وہ بھارت میں داخل ہوتے ہیں ‘اس سے 30کلومیٹر پہلے‘ ان دریاؤں کے رخ کو موڑا جا سکتا ہے‘ اس کام کے لیے گلگت بلتستان کے 3پہاڑوں کی کٹائی سے دریا کا رخ موڑا جا سکتا ہے‘‘۔

یہ پوسٹ کسی نے فیس بک پر دیا تھا اور محترم دوست اور کالم نگار مشتاق شباب نے اس کا اپنے کالم میں ذکر کیا ‘اس پر مجھے یاد آیا کہ دریائے چترال بھی چترال سے نکلتا ہے اور افغانستان جاکر دریائے کابل میں مل جاتا ہے ‘اس کا رخ بدلنا بھی کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے‘ اس سارے مسئلے کے ساتھ اب تو ہندوستان کے بعد افغانستان سے بھی پانی کا مسئلہ پیدا ہونے کا امکان ہے۔

پاکستان کا جغرافیہ ‘قدرت نے ‘بہت خوبصورتی سے ترتیب دیا ہے۔شمال میں ہر طرف‘برف سے ڈھکے‘ دنیا کی بلند ترین پہاڑ ‘گلیشئر‘پانی کے چشمے اور دریا‘ جنوب میں‘ سال میں تین چار فصلیں اگانے کی صلاحیت والی‘ وسیع و عریض ‘زرخیز زمین اور میدان‘ لیکن اس کے لیے پانی چائیے ا ور پانی شمال میں ہے۔ ہمارے پانی کے زیادہ منبع‘شمال میں ‘کوہ ہندوکش‘ قراقرم‘ افغانستان اور کشمیر (کوہ ہمالیہ) میں ہیں۔

ہندوستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کے تحت‘ دریائے ستلج‘ بیاس اور راوی ہندوستان کے حصے میں آئے اور دریائے سندھ‘  جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے۔ افغانستان سے دریائے کابل اور دریائے کنڑ کے علاوہ بھی کافی ندی نالے اور چھوٹے دریاؤں کا پانی پاکستان میں آتا ہے ‘پاکستان ان دریاؤں یا ندی نالوں کی زیریں سمت میں واقع ہے ‘اس لحاظ سے پاکستان (Low Riparian) اور ہندوستان اور افغانستان (Upper Riparian) کے زمرے میں آتے ہیں۔ہندوستان کا موڈ خراب ہو تو‘ وہ چناب اور جہلم کے دریاؤں کا پانی روکنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔

پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہاں پر پانی کے عظیم ذخیرے موجود ہیں‘اباسین کا زیادہ پانی پاکستان کے اندر سے آتا ہے‘ صرف تھوڑا پانی لداخ سے آتا ہے ‘ اسی طرح دریائے سوات‘ دریائے سواں‘دریائے دوڑ‘ دریائے کنہار ‘دریائے گومل‘ دریائے دیر‘دریائے پنچ کوڑہ‘ دریائے چترال کے علاوہ بہت سے دریا اور ندی نالے‘ پاکستان کے شمال میں واقع گلیشیرزاور پہاڑوں کے علاوہ برسات کی بارشوں سے بھی‘بے اندازہ پانی آتا ہے ‘لیکن ہمارے پاس ‘قدرت کے اس عظیم تحفے کو ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں‘ہم تربیلا کے بعد ان پانیوں کے لیے کوئی ڈیم نہ بنا سکے اور یہ سارا پانی سمندر میں جاکر ضایع ہو جاتا ہے۔اس لیے روزانہ مودی صاحب ‘پانی بند کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔اگر وہ پانی بند بھی نہ کرے‘ تب بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارا ذخیرہ شدہ پانی اب کم پڑ رہا ہے ‘ہر فصل کے موقع پر صوبوں کے درمیان ‘ارسا میدان جنگ بنتا ہے۔

وہ محاورہ ہمارے اوپر فٹ آتا ہے کہ ’’آسمان سے گرا‘ کھجور میں اٹکا ‘‘۔دوراندیش لوگ بار بار زور دے رہے تھے کہ ‘پانی کے بڑے ڈیم بنائیں ‘اس سے بجلی اور پانی ‘دونوں کی کمی کا مسئلہ حل ہوجائے گا ‘لیکن پاکستان کے کسی بھی حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی‘ کمیشن مافیا کے زیر اثر‘ بس کوئلے اور تیل سے بجلی پیدا کرنے کے مہنگے منصوبے‘ IPPکے ذریعے یا پبلک سیکٹر میں لگائے گئے‘ اب تک ہندوستان سے شکایت تھی کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے‘ ڈیم بناکر ہمارا پانی روک رہا ہے اب تو خیر سے افغانستان بھی ترقی کرچکا ہے اور اپنے دریاؤں پر ڈیم بنا رہا ہے جس سے پھر ہمیں مسائل کا سامنا ہوگا‘اس بارے میں مختلف رپورٹوں اور خبروں کی بنیاد پر یہ کالم حاضر ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق ‘افغانستان اپنے ملک میں دریائے کابل پر بجلی بنانے والے12 ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے ‘اے جی این عباسی کمیٹی نے 2003 میں افغانستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کا معاہدہ کرنے کی سفارش کی تھی ‘ایک اور خبرکے مطابق پاکستان کی وزارت پانی و بجلی‘ نے افغانستان کے ساتھ پانی کا معاہدہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی ‘افغانستان سے دریائے کابل پرمختلف ڈیم بنانے کی مصدقہ خبروں کے بعد وزارت میں اس موضوع پر کئی اعلیٰ سطحی اجلاس ہو چکے ہیں‘مختلف ممالک میں تعینات پاکستان کے سفیروں نے بھی اس موضوع پر وقتاً فوقتاً‘ وزارت پانی و بجلی سے بات کی ہے ‘وزارت خارجہ نے بھی اس موضوع کو کئی بار اٹھایا ہے۔

وزارت خارجہ کے اعلیٰ افسر کے بیان کے مطابق‘ وزارت نے مختلف ایجنسیوں سے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ پانی کی تقسیم اور صورت حال کے بارے میں اطلاعات کا نظام نافذ کرے ‘چونکہ پاکستان پانی کے زیریں حصے(Low Riparian) پر ہے اس لیے‘ اس کا حق ہے کہ افغانستان کے اندر دریائے کابل میں بہنے والے پانی کی مقدار کے بارے میں اس کو معلومات فراہم کی جائیں۔

4جون2013کو شایع ایک خبر کے مطابق‘ افغان حکام نے ہندوستانی ماہرین کے تعاون سے دریائے کابل پر 12ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی فزیبلٹی اور تفصیلی انجینئرنگ رپورٹیں تیار کی ہیں‘ جس سے 1177 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی‘یہ بھی رپورٹیں ہیں کہ اگر یہ 12پراجیکٹ مکمل ہوگئے‘اس سے 4.7MAF پانی کا ذخیرہ ہوگا‘اس طرح پاکستان کو آنے والے پانی میں کمی ہوگی ‘ڈاکومنٹس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان 12منصوبوں کے لیے عالمی بینک 7.079ارب ڈالر کی امداد دے گا۔پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ دریائے کابل اور دریائے کنڑ پر ورسک کے علاوہ کوئی اور ڈیم نہ بنا سکا اور دریائے سوات کے مہمند ڈیم کی تعمیر بھی کافی تاخیر سے شروع کر سکا ۔  (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔