سینہہ کے تیر اور آئی ایم ایف کی چٹائی

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 7 ستمبر 2019
barq@email.com

[email protected]

اس بات کا ہمارے پاس کچھ بھی جواز نہیں ہے کہ آج ہمیں ایک بہت ہی بھولے بسرے بلکہ گئے گزرے اور زندگی سے دور پرے’’جانور‘‘کی یاد کیوں آرہی ہے یہی تو ہمارا دماغی ٹیڑھ پن ہے کہ جو کرتے ہیں اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی اور جس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ کرتے نہیں۔

اب دیکھیے اس دنیا میں اور کیا نہیں ہے انجیلناجولی کے ہونٹ،پریانکا چوپڑا کی ناک ہے،دیپکاپاڈوکون کے ڈمپل ہیں، لیڈی گاگا کے بال ہیں چلیے وہ نہ سہی تو وینا ملک کی واپسی،ایان علی کی کہانیاں،قندیل بلوچ کی جواں مرگی ہی یاد آجاتی ہے۔ لیکن یاد آیا بھی تو ایک ایسا جانور جس کا ذکر نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔یا نہ ہبوں میں نہ شبوں میں۔ اپنے اس دماغی ٹیڑھ پن کو ہم آج تک سمجھ نہیں پائے اس کے لیے ہمارا ارادہ تھا کہ کسی دن علامہ ڈاکٹر پروفیسر طاہرالقادری صاحب سے رجوع کریں لیکن

وے صورتیں الہیٰ کس دیس بستیاں ہیں

اب دیکھنے کو جن کو آنکھیں ترستیاں ہیں

اب مولانا طارق جمیل پرنظرہے لیکن وہ مصروف بہت ہیں کبھی موقع ملا تو ہم بھی ان سے استفادہ کرلیں گے۔فی الحال تو اس کم بخت اور ان چاہے جانور کا ذکر ہوجائے جس کا نام اردو میں شاید سینہہ(sinh) ہوتاہے(عام طور پر لوگ بولنے میں اسے سیہہ بولتے ہیں) جس کا جسم گیدڑ اور لومڑی سے بھی کم ہوتاہے لیکن جسم پراتنے تیزنوکدار اور خطرناک تیرہوتے ہیں کہ بڑے بڑے جانور اس سے پنگا نہیں لیتے کیونکہ سنا ہے جب یہ اپنے جسم کو پھلا کر ہلا کر گھماکر تیربرساتاہے ؎

ناوک انداز جدھردیدہ جاناں ہوں گے

نیم بسمل کہیں ہوں گے کہیں بے جاں ہوں گے

اس کے یہ تیر بلیک اینڈ وائٹ رنگ، چار چھ بلکہ آٹھ دس انچ تک لمبے ہوتے ہیں اور پرانے زمانے میں اکثر لوگ اس کے تیر سے قلم کاکام لیتے تھے خاص طور پرجن لوگوں کو کسی دوسرے کو چیرنا پھاڑنا ہوتا تھا۔کبھی کبھی ہمارا بھی ارادہ ہوتاہے کہ کالم لکھنے کے لیے خاص طور پر سیاسی لیڈروں سے متعلق کالم لکھنے کے لیے ایک سینہہ کے تیر کا بناہوا قلم رکھ لیں۔

لیکن اس میں ایک بہت بڑا خطرہ بھی ہے، کہاجاتاہے کہ جس گھر میں سینہہ کا تیر ہو وہاں لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں چنانچہ اکثرگھروں میں جب ساس بہو یا بیوی شوہر یا بھائی بہنوں میں جھگڑے ہونے لگتے ہیں تو بڑی بوڑھیاں گھر کی دیواروں دراڑوں سوراخوں وغیرہ میں دیکھتی ہیں کہ کسی نے کہیں کوئی سینہہ کا تیر تو چھپا کرنہیں رکھا ہوا ہے۔

اس صفت خاص کی وجہ سے پشتو میں ایسے لوگوں کو بھی سینہہ کا تیرکہاجاتاہے جو لیڈرانہ مزاج رکھتے ہیں اور جہاں جاتے ہیں وہاں داستان خونچکاں چھوڑ کرآتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمیں خیال آتاہے کہ کہیں پڑوسی ملک نے اپنے ہاں تو کوئی ایسا تو کچھ نہیں کیا ہوا ہے لیکن پھر اس خیال کو رد کر دیتے ہیں کہ جہاں خود اتنے زیادہ تیر ہوں کہ پورے ملک پر ایک بڑے سے سینہہ کا گمان ہوتاہے وہاں سینہہ کا تیر کیا بیچے گا۔

آپ شاید پاکستان کو ’’سینہہ‘‘کہنے پر برا مان جائیں۔لیکن اس میں ایک صفت بھی توہے اپنے اتنے چھوٹے سے وجود سے اتنے بڑے پڑوسی کو بھی تو ڈرائے ہوئے ہے۔لیکن اور اس صفت سے تو آپ کو پکا پکا یقین ہوجائے گا کہ ہم کچھ زیادہ غلط نہیں ہیں۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ جب آتشیں اسلحہ نہیں تھا تو اس فصلوں کے دشمن کو شکار کرنے ایک کمالی طریقے سے شکار کیاجاتا ہے جس کا سارا کمال خود سینہہ کی ایک عادت میں پوشیدہ ہوتا تھا۔

سینہہ جب کسی کھیت کو برباد کرنے لگتاتھا تو ہر رات کو آتا لیکن اس میں یہ بری عادت ہے کہ جب ایک راستے سے پہلی بار آتاہے تو پھر ہمیشہ اسی راستے سے آتاہے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہوتا ایک طرح سے اپنے پہلے والے نقش قدم پرآتا ہے۔کسان اس کی اس عادت سے فائدہ اٹھاتے کہ اس کا راستہ پہلے معلوم کرلیتے پھر ایک چٹائی کو لپیٹ کرسرنگ سی بنالیتے تھے اور اوپر سے اچھی طرح باندھ کر سیمنٹ کے پائپ جیسی ایک چیز بنالیتے، اس پائپ کو سینہہ کے راستے پرنصب کردیتے ادھر ادھر اور اوپر کچھ کانٹے دار جھاڑیاں بھی رکھ لیتے کہ کہیں بے خیالی میں ادھر ادھر نہ ہوجائے سینہہ آتا اور اپنے مخصوص راستے پریہ سرنگ دیکھتا تو سر مو ادھر ادھر ہوئے بغیر اس میں گھس جاتا، سرنگ کا آخری سرا بھی کانٹوں سے بند ہوتا، یوٹرن کی گنجائش بھی نہ ہوتی اس لیے الٹے پاؤں ریورس گیرلگا کر نکلنے کی کوشش کرتا لیکن اس کے تیر چٹائی میں پیوست ہوکر اسے بری اوراچھی طرح جکڑلیتے اور کسان آکر اسے پکڑ لیتے اور کیفرکردار کو پہنچا دیتے۔

اب یہاں سے اچانک ہمارا خیال اس چٹائی سے آئی ایم ایف کی طرف چھلانگ لگاتا ہے اور ’’تیر‘‘کو آپ اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں خیال سے خیال پھوٹتا ہے اس لیے چٹائی میں جکڑے سینہہ اور قرضوں میں جکڑے۔ ہمارا خیال ہے کہ نام لینے کی ضرورت بھی کیا ہے صرف چٹائی سینہہ کی عادت اور تیروں کی دوستی پرنظر رکھنا کافی ہے۔ایسے میں اچانک ہمیں پڑوسی ملک کا ایک آئٹم سانگ یاد آنا بھی بالکل فطری ہے کیونکہ آج کل جو آئٹم سانگ آرہے ہیں ان میں کسی نے دھیان نہیں دیا ہے بلکہ دھیان بٹانے کے لیے ان میں اتنے مسالے ڈالے جاتے ہیں کہ اصل مطلب ومفہوم کہیں گم ہوجاتاہے جیسے

رانا جی غصے کے ٹاور میں گھس جائے ایروپلیس

جیسے عراق میں جاکرگھس گئے انکل فین۔۔یا بنا باد کے افغانستان کابج گیا پورا بینڈ۔

ایسے ہی ایک اور آئٹم سانگ پر ہماری توجہ گئی تو پورا ’’سینہہ‘‘کے شکار آئی ایم ایف کی بچھائی ہوئی چٹائی اور خود سینہہ کو پکڑنے جکڑنے والے اس کے اپنے ’’تیر‘‘۔سب صاف صاف نظر آئے۔مگر اس میں صرف ایک لفظ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔عشق کی جگہ ’’قرض‘‘رکھنا ہوگا۔بچ کے تو رہنا۔ہاں بچ کے تو رہنا۔نہیں دوجا موقع ملے گا سنبھلنے کا، کہیں بھی ملے گا تو کردے گا۔خلاص۔اے اے خلاص ایک دم خلاص۔ کہیں بھی چھپے گا،تجھے ڈھونڈلے گا۔

یہ ہے قرض سمجھا۔تجھے کرہی دے گا خلاص۔ھے ھے خلاص۔ ایک دم خلاص۔ایک بار پھس گیا تو،تو مرگیا، سمجھ لے۔جینا بھی تیرا مشکل،مرنا بھی تیرا مشکل۔تو وہ کر گیا سمجھ لے،یہ ہے قرض پیارے۔تجھے کرہی دے گا خلاص۔ ایک دم خلاص۔یہ وہ راستہ ہے جہاں مڑنا مشکل۔یہ وہ داستان ہے۔شروع ہوگئی تو۔تجھے کرہی دے گا خلاص۔ایک دم خلاص۔کیاآپ کو نہیں لگتا۔ اگر چٹائی میں پھنسے ہوئے ’’سینہہ‘‘کے لیے اس سے زیادہ حسب حال گانا اور کوئی نہیں ہے اور اگر سینہہ کے لیے یہ گانا ٹودی پوائنٹ ہے۔تو پھر چٹائی اور تیروں کو پہچاننا کیامشکل ہے۔

اس آئٹم سانگ سینہہ کے چٹائی میں آپ کو کچھ جانا پہچانا نہیں لگ رہاہے،  ہمیں تو لگ رہاہے اور بہت زیادہ لگ رہاہے کہ چٹائی بھی صاف نظر آرہی ہے اس میں پھنسا ہوا سینہہ بھی اور اس کے جسم کا حصہ ’’تیر‘‘بھی۔ایسے سینہہ ہمارے ہاں بھی بہت ہیں،جو گاڑیاں قسطوں پرلیتے ہیں آگے نقد بیچ کر اپنی ’’خانی‘‘قائم کرتے ہیں اور پھر ایک دن۔خلاص ایک دم خلاص۔

ہمارے ایک دوست کابھی پشاور کے ایک ایسے سینہہ سے واسطہ پڑاتھا جو ایک زمانے میں ’’قرض کی مے‘‘ سے بہت بڑا سیٹھ بناتھا۔لیکن چٹائی میں پھنسنے کے بعد اس کا حال یہ ہوا کہ ہم اس دوست کے ساتھ بڑی مشکلوں سے اس کا پتہ کرکے پہنچے تو وہ ایک چھوٹی سے کھولی میں کاغذ کے لفافے بنارہاتھا دکانداروں کے لیے۔بیچارا سینہہ اور اس کے تیر اور آئی ایم ایف کی چٹائی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔