کمزور الیکشن کمیشن اور شفاف انتخابات

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 7 ستمبر 2019
tauceeph@gmail.com

[email protected]

غیر جانبدار الیکشن کمیشن اور شفاف انتخابات کیا اس ملک میں ممکن ہیں؟ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے اپنے دو حامیوں کو الیکشن کمیشن کا رکن نامزد کرکے نقادوں کو یہ سوچنے پر مجبورکر دیا کہ گزشتہ حکومت میں انتخابی دھاندلیوں پر تحریک انصاف کا واویلا محض اقتدار میں آنے کا ایک ذریعہ تھا۔

چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا کی جانب سے حکومت کے نامزد کردہ ارکان سے حلف نہ لینے کے فیصلے کے باوجود حکومت اپنے فیصلے پر نظرثانی کے لیے تیار نہیں ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 213 چیف الیکشن کمشنر اورچاروں صوبوں سے کمیشن کے اراکین کے انتخاب کے لیے بالکل واضح ہے۔آئین کی اس شق کے تحت پہلے مرحلے میں وزیر اعظم کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرنی چاہیے۔ دونوں رہنماؤں کو تین تین ناموں کا پینل پیش کرنا چاہیے، اگر دونوں رہنماؤں میں اتفاق رائے نہ ہوسکے تو ایک پارلیمانی کمیٹی بننی چاہیے۔اس کمیٹی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے پارلیمنٹ کے اراکین مساوی تعداد میں شامل ہوں۔

پارلیمانی کمیٹی کو دونوں جانب کے امیدواروں کے پینل پر غورکرنا چاہیے، اگر پارلیمانی کمیٹی میں بھی ناموں پر اتفاق نہ ہو تو حکومت کے پاس دو راستے رہ جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کا ریفرنس پر فیصلہ حتمی ہوگا یا حکومت کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعے آئین میں تبدیلی کے لیے ترمیم منظورکرا لے۔

الیکشن کمیشن میں دو نشستیں اس سال 26 جنوری کو خالی ہوئی تھیں۔آئین کے آرٹیکل 215(4) کے تحت ان نشستوں پر انتخاب 45 دن میں مکمل ہونا چاہیے تھا۔ وفاقی حکومت نے ابتدائی دنوں سے الیکشن کمیشن کو مکمل کرنے کے معاملے میں غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا۔ پاکستان کے آئین اور نظام حکومت سے دلچسپی رکھنے والے ماہرین کو اس وقت حیرت ہوئی جب وزارت خارجہ کے ایک سیکشن آفیسر نے الیکشن کمیشن کی ان آسامیوں پر تقرری کے لیے قائد حزب اختلاف کو خط تحریرکیا۔

وزارت خارجہ کا پارلیمانی امور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملک میں پارلیمانی امورکی وزارت موجود ہے اور اعظم سواتی اس کے وزیر ہیں۔ آئین کے تحت وزیر اعظم کو یہ خط قائد حزب اختلاف کو تحریرکرنا چاہیے تھا۔ اس معاملہ میں وزارت خارجہ کے کردار پر تنقید ہوئی تو وزیر اعظم ہاؤس کے ایک افسر نے قائد حزب اختلاف کو خط بھیجا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم براہ راست انھیں خط بھیجیں۔

اگرچہ وزیر اعظم بادل ناخواستہ خط لکھنے پر تیار ہوئے مگر خاصا وقت اس غیر ضروری مشق میں ضایع ہوا۔ جب پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق رائے نہیں ہوا تو حکومت نے آئین کی روح کو پامال کرتے ہوئے حکومت کے نامزد کردہ دو امیدواران کو الیکشن کمیشن کا رکن بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اب اگلے چند ماہ بعد موجودہ چیف الیکشن کمشنر اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے، اگر اس وقت یہ صورتحال پیدا ہوئی تو پھر غیر جانبدار الیکشن کمیشن کا تصور محض تحریک انصاف کے منشور کے صفحات تک محدود رہ جائے گا۔

ملک کے آئین اور انتخابات کی تاریخ شاہد ہے کہ الیکشن کمیشن ہمیشہ وفاقی حکومت کے ماتحت رہا۔ وفاقی حکومت چیف الیکشن کمشنر اور اس کے اراکین کا تقررکرتی تھی۔ الیکشن کمیشن مالیاتی اور انتظامی امورکے لیے حکومت کا محتاج ہوتا تھا۔ جب بھی انتخابات ہوئے تو دھاندلی کے الزامات لگے اور ہمیشہ یہ بات کہی گئی کہ آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کے قیام سے ہی شفاف انتخابات کا انعقاد عملی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ جب 2005میں لندن میں پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف کے مذاکرات ہوئے تو ان مذاکرات میں شفاف انتخابات، عوام کے جاننے کا حق اور صوبوں کے حقوق جیسے اہم نکات شامل تھے، دونوں رہنما میثاق جمہوریت پر متفق ہوئے۔

میثاق جمہوریت میں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے عہدکیا کہ جب بھی ان کی جماعتیں انتخابات میں اکثریت حاصل کریں گی تو میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 27 دسمبر 2007کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دہشت گردی کے حملے میں شہید کر دی گئیں۔ 2008 میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے۔ میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔

اگرچہ دونوں جماعتوں میں صرف تین ماہ تک اتحاد رہا اور پھر مسلم لیگ ن وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہوگئی۔ پنجاب کی کابینہ میں شامل پیپلز پارٹی کے وزراء کو صوبائی وزارت سے علیحدہ کیا گیا، مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں میڈیا میں جنگ وجدل کے باوجود مذاکرات جاری رہے۔ پیپلز پارٹی کے رضا ربانی ، مسلم لیگ کے اسحق ڈار، نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو اور عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار ولی نے ان مذاکرات کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا، یوں 2010 میں پارلیمنٹ میں 18ویں ترمیم منظور ہوئی۔اس ترمیم میں پہلی دفعہ دیگر اہم نکات کے علاوہ آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کا تصور عملی شکل اختیارکرگیا۔ اب الیکشن کمیشن انتظامی اور مالیاتی طور پر مکمل خود مختار ہوا۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمیشن بنانے کی پیشکش کی۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے طویل عمری کے باوجود اس پیشکش کو قبول کرلیا۔ 18ویں ترمیم کے تحت خودمختار الیکشن کمیشن کے تصور کو یقینی بنانے کے لیے یہ شق شامل ہوئی کہ چیف الیکشن کمشنر اور چاروں اراکین کے یکساں اختیارات ہونگے اور الیکشن کمیشن کے فیصلے چیف الیکشن کمشنر اور پانچوں اراکین کے درمیان اکثریت کی بنیاد پر ہونگے۔ یہ شق اس تناظر میں شامل کی گئی تھی کہ چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف تمام اراکین کے مؤقف پر بالادستی حاصل نہ کرسکے۔

2018 کے انتخابات میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے مداخلت کی۔ افتخار چوہدری نے صدرکا انتخاب الیکشن کمیشن کی طے کردہ تاریخ سے پہلے کرانے کا حکم دیا ۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے جب اس صورتحال کے تدارک کے لیے ایک نوٹ تیارکیا تو اراکین کی اکثریت نے اس نوٹ کی توثیق نہیں کی، یوں الیکشن کمیشن کی ساکھ کو نقصان ہوا۔ 2018کے انتخابات کے بعد چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم مستعفیٰ ہوگئے مگر ان کے استعفیٰ کی وجوہات پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی۔

جب تحریک انصاف کے سربراہ نے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تو الیکشن کمیشن اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکا۔ یہ معاملہ تحریک انصاف کے ہارے ہوئے امیدواروں کی الیکشن ٹریبونل میں عرضداشت پر فیصلوں سے منسلک ہوگیا۔ عمران خان نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا تو ان کا مطالبہ شفاف انتخابات تھا۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات سپریم کورٹ کے فاضل جج کی قیادت میں ٹریبونل نے رد کردیے مگر قومی اسمبلی نے انتخابی اصلاحات کے لیے کمیٹی قائم کی۔

شروع میں تحریک انصاف کے اراکین نے کمیٹی کے کاموں میں دلچسپی نہیں لی پھر تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں نے مشترکہ طور پر سفارشات تیار کیں، مگر اس کمیٹی کی سفارشات کو متنازعہ بنانے کے لیے ایک مذہبی معاملہ غیرضروری طور پرکھڑا کیا گیا اور انتخابی اصلاحات نہیں ہوسکیں۔ تحریک انصاف نئے پاکستان کے نعرے پر اقتدار میں آئی۔ وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ برطانیہ کی جمہوریت کی مثالیں دیتے ہیں۔

برطانیہ کے جمہوری نظام کی بنیاد شفاف انتخابات اور عظیم پارلیمانی روایات پر ہے مگر سینیٹ کے چیئرمین کے خلا ف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی سے واضح ہوگیا کہ نئے پاکستان کا تصور ابھی دور ہے۔ 50ء کی دہائی سے ووٹ کو چرانے اور نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے جو حربے استعمال ہوتے رہے ہیں موجودہ حکومت بھی وہی حربے استعمال کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن میں اپنی مرضی کے امیدواران کی نامزدگی سے پھر یہ احساس تقویت پاگیا کہ شفاف انتخابات اور آزاد وخودمختار الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے مگر جمہوری نظام کی بقاء کے لیے غیر جانبدار اور خودمختار الیکشن کمیشن ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔